راہِ ہدایت
امید ہے ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے گا ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ (سورۃ القلم :آیت 32)

نیا چیف جسٹس کون؟ تقرر کیلئے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم، نوٹیفکیشن جاری


اسلام آباد: (دنیا نیوز) نئے چیف جسٹس کے تقرر کیلئے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم ہو گئی جس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔


اشتہار

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،اپنے رپورٹر سے ،لیڈی رپورٹر،دنیا نیوز)26 ویں آئینی ترمیم کے تحت نئے چیف جسٹس کی تقرری کیلئے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی گئی، جس میں قومی اسمبلی سے آٹھ اور سینیٹ سے 4 ارکان کو پارلیمنٹ میں جماعتوں کی متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت لیا گیا ہے۔

اسلام آباد(دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق نظر ثانی کی درخواست خارج کر دی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کی، تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے نظرِ ثانی درخواست کیلئے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی اورکہا کیس لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے کمیٹی کو بھیجا جائے۔

اسلام آباد(دنیا نیوز)سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ کیس عام بینچ سنے یا آئینی بینچ؟لگتا ہے سوال ہر روز اٹھے گا۔سپریم کورٹ نے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام سے متعلق کیس پر سماعت کی۔

اسلام آباد(نامہ نگار)وزیراعظم شہبازشریف نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی نہایت شاندار مثال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے محلاتی سازشوں کا عہد ختم ہوا ہے اور میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پورا ہوگیا۔

لاہور (نمائندہ دنیا ،اے پی پی) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 26 آئینی ترمیم کی منظوری پر وزیراعظم شہباز شریف، تمام قائدین، جمہوری اتحادی قوتوں، اتحادی جماعتوں اور عوام کو مبارکباد دی ہے۔

اسلام آباد(اپنے نامہ نگار سے)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے لاپتہ وکیل انتظار حسین پنجوتھہ کی بازیابی کیس میں انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

اسلام آباد(اپنے رپورٹر سے، مانیٹرنگ ڈیسک)جماعت اسلامی نے 26ویں آئینی ترامیم چیلنج کرنے کاعندیہ دیدیا، امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وکلا سے مشاورت کر رہے ہیں آئینی ترامیم پر موجودہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، احتجاج کا آپشن بھی موجود ہے، فیصلے مشاورت سے کریں گے۔

اسلام آباد(خصوصی نامہ نگار)وفاقی وزیر امور کشمیر، گلگت بلتستان و سیفران انجینئر امیر مقام نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر قوم کو مبارکباد پیش کی۔۔۔

متفرقات

26ویں آئینی ترمیم

26ویں آئینی ترمیم

چونکہ یہ ضروری ہے کہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مزید ترامیم کی جائیں لہٰذا اس کیلئے حسب ذیل طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔ مختصر عنوان:اس ایکٹ کو آئین (چھبیسویں ترمیم) ایکٹ 2024ء کہا جائے گا اور یہ ایکٹ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔نئے آرٹیکل 9 A کا اضافہ: آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آرٹیکل 9 کے بعد درج ذیل نیا آرٹیکل شامل کیا جائے گا۔ A 9 صاف اور صحت مند ماحول: ہر شخص کو صاف ، صحت مند اور پائیدار ماحول کا حق حاصل ہو گا۔(1) آرٹیکل 38 کی ترمیم: آرٹیکل 38 میں ذیل میں بیان کیے گئے پیرا گراف (f) کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا۔ ربا (سود) کو جنوری 2028ء تک مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔(2) آرٹیکل 48 کی ترمیم: آرٹیکل 48 میں بیان کیے گئے کلاز (4) کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا۔ 1 (4) یہ سوال کہ صدر کو کابینہ یا وز یر اعظم کی طرف سے جاری کئے گئے حکم کی جانچ کسی عدالت ، ٹربیونل یاد یگر اتھارٹی کے ذریعہ نہیں کی جائے گی۔(3) آرٹیکل 81 کی ترمیم: آئین کے آرٹیکل 81 میں (الف) پیرا گراف (b) میں ''سپریم کورٹ ‘‘ کے الفاظ کو'' سپریم کورٹ، پاکستان کی جوڈیشل کمیشن، سپریم جوڈیشل کونسل ‘‘ کے الفاظ سے تبدیل کیا جائے گا اور(ب) پیرا گراف (d) میں ''اور ‘‘ کا لفظ ختم کیا جائے گا اور اس کے بعد درج ذیل نیا پیرا گراف شامل کیا جائے گا۔(ج) قومی اسمبلی، سینٹ ، صوبائی اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کو منظم کرنے اور کرانے کیلئے درکار رقم ۔(4) آرٹیکل 111 کی ترمیم: آرٹیکل 111 میں'' ایڈوکیٹ جنرل ‘‘ کے بعد اور آرٹیکل 130 کی کلاز (11) میں مشیر کے الفاظ شامل کیے جائیں گے۔(5)آرٹیکل 175 A کی ترمیم: آئین کے آرٹیکل 175 A میں (i) کلاز (1) میں ''شریعت کورٹ ‘‘ کے بعد اور ہائی کورٹس کے ججوں کی کار کردگی کا جائزہ کے الفاظ شامل کیے جائیں گے ۔(ii) کلاز (2) کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا ''سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کیلئے کمیشن درج ذیل افراد پر مشتمل ہو گا۔چیف جسٹس پاکستان صدر،سپریم کورٹ کے تین سینئر جج ر کن، وفاقی وزیر برائے قانون وانصاف رکن،پاکستان کے اٹارنی جنرل رکن،پندرہ سال یازیادہ تجربے کے ساتھ سپریم کورٹ کے وکیل، جسے پاکستان بار کونسل دو سال کیلئے نامزدکرے رکن،سینٹ اور قومی اسمبلی سے دوارا کین، جن میں سے دو حکومتی بینچوں سے اور دو اپوزیشن بینچوں سے ہوں گے، ایک خاتون یا غیر مسلم جو سینٹ کا رکن بننے کی اہلیت رکھتا ہو ، اسے قومی اسمبلی کے اسپیکر دو سال کی مدت کیلئے نامزد کریں گے ر کن ہوں گے۔(6)آرٹیکل 177 کی ترمیم: آئین کے آرٹیکل 177 میں کلاز (2) کو مندرجہ ذیل الفاظ سے تبدیل کیا جائے گا۔ (2) کسی کو سپریم کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ پاکستان کا شہری نہ ہو اور (a) وہ کم از کم پانچ سال کے عرصے تک ہائی کورٹ کا جج رہا ہو یا(b) وہ کم از کم پندرہ سال تک ہائی کورٹ کا وکیل رہا ہو اور سپریم کورٹ کا وکیل ہو۔ (7)آرٹیکل 179 کی ترمیم: آرٹیکل 179 میں فل سٹاپ کے بعد درج ذیل جملہ شامل کیا جائے گا،بشر طیکہ چیف جسٹس پاکستان کی مدت تین سال ہو گی یا جب تک کہ وہ استعفیٰ نہ دے، 65 سال کی عمر تک نہ پہنچ جائے یاآئین کے تحت بر طرف نہ کیا جائے، جو بھی پہلے ہو۔ (8) آرٹیکل 184 کی ترمیم: 3 آرٹیکل 184 میں کلاز (3) کے آخر میں درج ذیل شق شامل کی جائے گی ۔بشر طیکہ سپریم کورٹ از خود نوٹس کی بنیاد پر کسی درخواست کے مندرجات سے باہر کوئی حکم جاری یا ہدایت نہ دے۔ (9)185 کی ترمیم: آرٹیکل 185 کے کلاز (2) کے پیرا گراف (d) میں'' پچاس ہزار ‘‘ کے الفاظ کو'' ایک ملین ‘‘ سے تبدیل کیا جائے گا۔(10) آرٹیکل 186 A کی تبدیلی: آرٹیکل 186 A کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا: 186A'' سپریم کورٹ کا مقدمات منتقل کرنے کا اختیار ، اگر سپریم کورٹ یہ مناسب سمجھے تو انصاف کے مفاد میں کسی بھی مقدمے، اپیل، یادیگر کارروائی کو کسی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ یا خود سپریم کورٹ کو منتقل کر سکتی ہے ‘‘۔(11) آرٹیکل 187 کی ترمیم: آرٹیکل 187 کے کلاز (1) کے آخر میں درج ذیل شق شامل کی جائے گی بشر طیکہ اس کلاز کے تحت کوئی حکم جاری نہ کیا جائے سوائے اس کے کہ یہ سپریم کورٹ کے پاس موجود کسی اختیار کی بنا پر ہو۔ ( 12)نیا آرٹیکل A191: آرٹیکل 191 کے بعد درج ذیل نیا آرٹیکل شامل کیا جائے گا :191A سپریم کورٹ کی آئینی بنچیں ،(1) سپریم کورٹ میں آئینی بنچیں ہوں گی جن میں سپریم کورٹ کے جج شامل ہوں گے اور ان کی مدت کا تعین پاکستان کیجو ڈیشل کمیشن و قتاًفوقتاً کرے گی ، بشر طیکہ آئینی بینچوں میں ہر صوبے سے برابر تعداد میں حج شامل کیے جائیں۔(2) آئینی بینچوں میں سب سے سینئر جج بینچ کی صدارت کریں گے۔(3) سپریم کورٹ کی کوئی بینچ جو آئینی بینچ نہ ہو وہ مندرجہ ذیل دائرہ اختیار استعمال نہیں کرے گی :(a) سپریم کورٹ کی اصل دائرہ اختیار آرٹیکل 184 کے تحت،(b) آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کے کسی فیصلے یا حکم کے خلاف اپیل کا دائرہ اختیار جہاں آئین کی تشریح سے متعلق اہم سوال ہو اور(c) آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کی مشاورتی دائرہ اختیار۔(13)آرٹیکل 193 کی ترمیم: آرٹیکل 193 کے کلاز (2) کو مندرجہ ذیل الفاظ سے تبدیل کیا جائے گا۔(2) کوئی شخص ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ پاکستان کا شہری نہ ہو ، اس کی عمر چالیس سال سے کم نہ ہواور(a) وہ کم از کم دس سال تک ہائی کورٹ کا وکیل رہا ہو یا(b) وہ کم از کم دس سال تک پاکستان میں عدالتی عہدے پر فائز رہا ہو۔ (14) آرٹیکل 199 کی ترمیم: آرٹیکل 199 میں کلاز (1) کے بعد درج ذیل نیا کلاز (1A) شامل کیا جائے گا،تشریح کیلئے ہائی کورٹ کوئی حکم ، ہدایت یا اعلان اپنی مرضی سے یا از خود نوٹس کی بنیاد پر نہیں دے گی، سوائے اس کے جودرخواست میں موجود ہو۔ (15)آرٹیکل 202 A کا اضافہ: آرٹیکل 202 کے بعد درج ذیل نیا آرٹیکل شامل کیا جائے گا، 202A ہائی کورٹ کی آئینی بنچیں۔ (1) ہائی کورٹ میں آئینی بنچیں ہوں گی جن میں ہائی کورٹ کے جج شامل ہوں گے اور ان کی مدت کا تعین پاکستان کی جوڈیشل کمیشن و قتاً فوقتاً کرے گی۔(2) آئینی بینچوں میں سب سے سینئر جج بینچ کے سربراہ ہوں گے۔(3) ہائی کورٹ کی کوئی بینچ جو آئینی بینچ نہ ہو، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت مخصوص دائرہ اختیار استعمال نہیں کرے گی۔(16) آرٹیکل 203 C کی ترمیم: آرٹیکل 203 C کے کلاز (3) میں ہائی کورٹ کے بعد یا فیڈرل شریعت کورٹ کا ایسا جج جو سپریم کورٹ کا جج بنے کی اہلیت رکھتا ہو کے الفاظ شامل کیے جائیں گے۔(17) آرٹیکل 203 D کی ترمیم: آرٹیکل 203 D کے کلاز (2) کے آخر میں درج ذیل نیا جملہ شامل کیا جائے گا ۔مزید یہ کہ آئین (چھبیسویں ترمیم) ایکٹ 2024 کے نفاذ کے بعد دیے گئے کسی فیصلے کے خلاف اپیل کو بارہ ماہ کے اندر نمٹایا جائے گا، اس کے بعد فیصلہ نافذالعمل ہو گا جب تک کہ سپریم کورٹ اسے معطل نہ کر دے۔ (18)آرٹیکل 208 کی ترمیم: آرٹیکل 208 میں'' سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ ‘‘ کے الفاظ کو سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ ، اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے الفاظ سے تبدیل کیا جائے گا۔(19) آرٹیکل 209 کی تبدیلی: آرٹیکل 209 کو مندرجہ ذیل عبارت سے تبدیل کیا جائے گا: پاکستان میں سپریم جوڈیشل کونسل ہو گی جسے اس باب میں '' کونسل ‘‘کہا جائے گا۔ کو نسل درج ذیل ارکان پر مشتمل ہو گی ۔(a) چیف جسٹس پاکستان، (b) سپریم کورٹ کے دوسب سے سینئر جج اور (c) ہائی کورٹس کے دوسب سے سینئر چیف جسٹس۔تشریح: اس کلاز کے تحت ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی بین السینارٹی کا تعین ان کی بحیثیت چیف جسٹس تعیناتی کی تاریخ سے کیا جائے گا۔ اگر دو چیف جسٹس کی تعیناتی کی تاریخ ایک جیسی ہو تو پھر ان کی ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے تقرری کی تاریخ کو ترجیح دی جائے گی۔(3) اگر کونسل کسی حج کی کار کردگی، صلاحیت، یا رویے کی جانچ کر رہی ہو جو کو نسل کارکن ہو یا جور کن غیر حاضر ہو یا کسی وجہ سے کارروائی میں حصہ نہ لے سکے ، تو اس کی جگہ لینے کیلئے درج ذیل ہو گا :(a) اگر چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے جج ہوں تو ان کی جگہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جو (2) کے پیرا گراف (b) میں مذکور جوں کے بعد سینئر ہو۔(b) اگر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوں تو ان کی جگہ دوسرا سینئر ترین ہائی کورٹ کا چیف جسٹس لے گا۔(4) اگر کونسل کے ارکان کے درمیان کسی معاملے پر اختلاف ہو تو اکثریت کا فیصلہ حاوی ہو گا اور کو نسل صدر کو اپنی رائے اکثریت کے مطابق پیش کرے گی۔(5) اگر کسی بھی ذریعے سے موصولہ معلومات یا آرٹیکل A175 کے کلاز (19) کے تحت کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر کونسل یا صدر کی رائے ہو کہ (2) سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی حج جسمانی یا ذہنی معذوری کے سبب اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نہیں ہے یا (b) وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں نااہل ہے یا (c) وہ بد عنوانی کا مر تکب ہوا ہے،تو کونسل اپنے طور پر یا کمیشن کی رپورٹ یا صدر کی ہدایت پر معاملے کی جانچ کرے گی۔ (20) آرٹیکل 215 کی ترمیم: آرٹیکل 215 کے کلاز (1) کے بعد درج ذیل نیا جملہ شامل کیا جائے گا:مزید یہ کہ کمشنر اور ایک رکن اپنی مدت کے اختتام کے باوجود اس وقت تک عہدہ سنبھالے رکھیں گے جب تک ان کا جانشین عہدہ سنبھال نہیں لیتا۔(21)آرٹیکل 229 کی ترمیم: آرٹیکل 229 میں ''دو پانچویں‘‘ کے الفاظ کو ایک چوتھائی سے تبدیل کیا جائے گا۔(22)آئین کے آرٹیکل 230 کی ترمیم: آرٹیکل 230 کے کلاز (4) کے آخر میں درج ذیل جملہ شامل کیا جائے گا۔مزید یہ کہ حتمی رپورٹ اس کے پیش کیے جانے کے بعد بارہ ماہ کے اندر زیر غور لائی جائے گی(23) آرٹیکل 255 کی ترمیم: آرٹیکل 255 کے کلاز (2) میں '' اس شخص ‘‘ کے الفاظ کے بعد صوبے میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے اور دیگر تمام معاملات میں پاکستان کے چیف جسٹس کی طرف سے کے الفاظ شامل کیے جائیں گے۔ 

آئین پاکستان کی ترامیم 1974ءتا 2024ء

آئین پاکستان کی ترامیم 1974ءتا 2024ء

آئین پاکستان میں اب تک 25 بار ترامیم کی جا چکی ہیں۔ ان میں سے 7 ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئیں۔ غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے دور میں3 آئینی ترامیم ہوئیں۔ نواز شریف کے ادوار میں8 آئینی ترامیم ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان کے دور میں 2، 2 آئینی ترامیم ہوئیں، جبکہ ظفراللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم کی گئی تھی۔ آئین پاکستان کی آٹھویں اور سترہویں ترمیم سب سے زیادہ متنازع قرار دی جاتی ہے۔ہر دو ترامیم کا تعلق غیر جمہوری صدور کے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا۔آٹھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیا الحق کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا جبکہ سترہویں ترمیم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو جمہوریت کیلئے مفید اور وفاق پاکستان کی اکائیوں کیلئے باعث تقویت مانا جاتا ہے،چنانچہ ا سے پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی تصورکیا جاتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے کیا اثرات ہوتے ہیں اور اسے تاریخ میں کن الفاظ میں یاد رکھا جاتا ہے۔ترامیم:آئین پاکستان میں کب اور کونسی ترمیم کی گئی، اس کی تفصیل درج ذیل ہیں۔ پہلی ترمیم: 4 مئی 1974ء: آئین پاکستان میں پہلی ترمیم کی دستاویز کو سرکاری طور پر آئین (پہلی ترمیم) ایکٹ 1974ء کہا جاتا ہے۔ یہ ترمیم 4 مئی 1974ء کو نافذ ہوئی۔ اس ترمیم کی رو سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1، 8، 17، 61، 101، 193، 199، 200، 209، 212، 250، 260 اور 272 میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ان ترامیم کے بعد پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔ دوسری ترمیم:7 ستمبر 1974ء: 1974ء میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیاگیا۔ اسے ''آرڈیننس 20‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تیسری ترمیم: 18 فروری 1975ء: اس ترمیم میں ''Preventive detention‘‘(احتیاطی حراست)کی مدت کو بڑھایا گیا۔''Preventive detention‘‘کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو نامعلوم مقام پر رکھنا جو ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔ چوتھی ترمیم:21 نومبر1975ء: آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم 21 نومبر 1975ء کو کی گئی۔ جس کی رو سے پارلیمان میں اقلیتوں کیلئے مختص نشستوں کا از سر نو جائزہ لیا گیااور انہیں پارلیمنٹ میں اضافی سیٹیں دی گئیں۔ پانچویں ترمیم:5 ستمبر1976ء: آئین پاکستان میں پانچویں ترمیم کی رو سے پاکستان کی تمام صوبائی عدالت عالیہ کا اختیارِسماعت وسیع کیا گیا۔ان ترامیم کو پاکستان میں 5 ستمبر 1976ء کو نافذ کیا گیا۔ چھٹی ترمیم:22 دسمبر1976ء: ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کی گئی۔ ساتویں ترمیم:16 مئی1977ء: وزیر اعظم کو یہ پاور دی گئی کہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کے جمہور(عوام) سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ آٹھویں ترمیم:11 نومبر1985ء: پاکستانی حکومت کا نظام پارلیمانی سے نیم صدارتی نظام میں تبدیل کیا گیا، جس کے تحت صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ نویں ترمیم: 1985: شریعہ لاء کو ملک کا اعلیٰ قانون کا درجہ دیا گیا۔دسویں ترمیم:29 مارچ1987ء: پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر کیا گیا، دو اجلاس کا درمیانی وقفہ 130 دن سے زیادہ نہیں ہو گا۔گیارہویں ترمیم: 1989ء: قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے نشستیں مخصوص کی گئیں ۔ بارہویں ترمیم: 1991ء: سنگین جرائم کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتیں عرصہ تین سال کیلئے قائم کی گئیں۔ تیرہویں ترمیم: 1997ء: صدر کی قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو ہٹانے کا اختیارختم کیا گیا۔ چودہویں ترمیم:3 جولائی1997ء: ارکان پارلیمنٹ میں کوئی نقص پائے جانے کی صورت میں ان کو عہدوں سے ہٹانے کا قانون بنایا گیا۔ پندرہویں ترمیم: 1998ء: شریعہ لاء کو لاگو کرنے کے بل کو پاس نہ کیا گیا۔ سولہویں ترمیم: 1999ء: کوٹہ سسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال کی گئی۔ سترہویں ترمیم: 2003ء: صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ اٹھارہویں ترمیم :8اپریل 2010ء: اس ترمیم میں NWFP کا نام تبدیل کیا گیا، آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیااور صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا گیا۔ انیسویں ترمیم:22 دسمبر2010ء: اسلام آباد ہائی کورٹ قائم کی گئی اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے قانون وضح کیا گیا۔ بیسویں ترمیم:14 فروری2012ء: صاف شفاف انتخابات کیلئے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا۔ اکیسویں ترمیم:7 جنوری2015ء: سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں۔ بائیسویں ترمیم:8 جون2016ء: الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو دیے گئے۔چیف الیکشن کمشنر کی اہلیت کا دائرہ کار تبدیل کیا گیا کہ بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بن سکیں گے۔ تئیسویں ترمیم:7 جون2017ء: 2015ء میں قومی اسمبلی نے 21 ویں ترمیم میں دوسال کیلئے ملٹری کورٹس قائم کیں۔ یہ دورانیہ 6 جنوری 2017 ء کو ختم ہوا۔اس ترمیم میں ملٹری کورٹس کے دورانیے کو مزید دو سال کیلئے (6 جنوری 2019ء) تک بڑھایا گیا۔ چوبیسویں ترمیم :22دسمبر2017ء: وفاقی اکائیوں کے مابین نشستوں کے تعین کا اعادہ اور 2017 ء کی خانہ و مردم شماری کی روشنی میں نئے انتخابی حلقوں کی تشکیل۔ پچیسویں ترمیم: 31مئی2018ء: فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا۔ 

دنیا کی پہلی یونیورسٹی

دنیا کی پہلی یونیورسٹی

ایک اندازے کے مطابق اس وقت تک دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کی کل تعداد30ہزار کے آس پاس ہے ۔ قدرتی طور پر ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کونسی ہوگی ، کہاں ہو گی اور اس کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا ہو گا ؟۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ 700قبل مسیح میں قائم ہونے والی ، دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کا اعزاز ''ٹیکسلا یونیورسٹی‘‘ کے پاس ہے جبکہ ایک طبقۂ فکر کے مطابق 427عیسوی میں برصغیر ہی میں قائم ہونے والی ''نالندہ یونیورسٹی‘‘ دنیا کی پہلی باقاعدہ یونیورسٹی تھی ۔بے شک یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیاں تھیں، لیکن ٹیکسلا یونیورسٹی کو ساسانیوں نے 470 عیسوی میں اور نالندہ یونیورسٹی 1193 عیسوی ہی میں ترک حکمران بختیار خلجی کے ہاتھوں تباہ کر دی گئی تھی۔تیونس کی الزیتونہ یونیورسٹی کا قیام 737 عیسوی میں عمل میں لایا گیا تھا مگر یہ بھی 1534 عیسوی تک ہی برقرار رہ سکی اور پھر سپین کے حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ کردی گئی۔ اسی طرح کچھ لوگوں کا گمان ہے کہ مصر کی الازہر یونیورسٹی جس کی بنیاد 970 عیسوی میں رکھی گئی تھی دنیا کی پہلی یونیورسٹی ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔ یونیسکو کے ( 2018)ریکارڈ کے مطابق گزشتہ 1160 سالوں کے دوران مراکش کی القرویین یونیورسٹی میں درس و تدریس کا عمل کبھی ایک دن کیلئے بھی نہیں رکا۔ اسی بنیاد پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے جامعہ القرویین کو دنیا کی پہلی فعال سب سے قدیم یونیورسٹی کا اعزاز دیا ہوا ہے۔القرویین قدیم ترین اور پہلی یونیورسٹی کیوں ہے؟تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں تیونس کی الزیتونہ یونیورسٹی 1534 عیسوی میں مسلسل 797 سال تدریسی عمل مکمل کرنے کے بعد تباہ کردی گئی۔ برصغیر کی نالندہ یونیورسٹی 1193 عیسوی میں 766 تدریسی سال مکمل کرکے حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ کر دی گئی جبکہ ٹیکسلا یونیورسٹی بھی 470 عیسوی تک 877 سال تدریسی عمل مکمل کرنے کے بعد کھنڈرات میں بدل دی گئی۔ لیکن ان کے برعکس مصر کی الازہر یونیورسٹی 1052 سالوں سے، اٹلی کی بولوگنا یونیورسٹی 936 سالوں سے ، آکسفورڈ یونیورسٹی 928 سالوں سے جبکہ مراکش کی القرویین یونیورسٹی مسلسل 1165 سالوں سے تدریسی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یونیسکو کی وسیع تر تحقیق اور اس یونیورسٹی کی مسلسل فعالیت کے باعث گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے القرویین یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی کا درجہ دے رکھا ہے۔ القرویین یونیورسٹی:تاریخی پس منظر ''حکمت (علم ) مومن کا کھویا ہوا میراث ہے‘‘۔یہ ہمارے دین کا درس ہے ہمارے لئے جبکہ اغیار کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں علم پھیلانے میں مغرب کا ہاتھ ہے اور یہ اصرار کہ اسلام نے عورت کو حتیٰ المقدور علم سے دور رکھا۔ یہ وہ الزام ہے جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیائے اسلام کو یہ سعادت حاصل ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے والی ایک مسلم خاتون اُم البنین تھیں۔ علم و دانش کی دلدادہ یہ نیک سیرت خاتون جن کا اصل نام فاطمہ بنت محمد الفہری القریشی تھا ، مراکش کے شہر قرویین میں 800 ہجری میں ایک دولت مند تاجر عبداللہ الفہری کے ہاں پیدا ہوئیں۔ الفہری کو قدرت نے جہاں انگنت نعمتوں سے نواز رکھا تھا، وہیں قدرت نے اسے دو خدا ترس ، نیک سیرت اور علم دوست بیٹیوں فاطمہ الفہری اور مریم الفہری سے بھی نواز رکھا تھا۔ اگرچہ الفہری اولاد نرینہ کی دولت سے محروم تھے لیکن قدرت نے ان بیٹیوں سے وہ کام لیا جو بڑے بڑے مرد بھی شاید نہ کر سکتے۔ الفہری خاندان نویں صدی کے اوائل میں تیونس کے شہر قرویین سے فاس ہجرت کر آیا ۔فاطمہ نے فاس ہی میں شادی کی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ فاطمہ اور ان کی بہن مریم کو وراثت میں باپ کی طرف سے بے انتہا دولت ورثے میں ملی۔ان دونوں بہنوں نے ورثے میں ملی دولت کو مساجد اور تعلیم کی ترویج اور ترقی میں خرچ کرنے کا ارادہ کرکے سب سے پہلے فاطمہ الفہری نے اپنے باپ کے ایصال ثواب کی نیت سے اپنے آبائی شہر کے نام کی مناسبت سے '' جامع مسجد القرویین‘‘ تعمیر کرائی جبکہ دوسری بہن مریم نے اپنی دولت سے اندلسین نامی ایک پر شکوہ اور عالی شان مسجد تعمیر کرائی جو اپنے دور کی سب سے بڑی مسجد تھی جہاں بیک وقت 22 ہزار سے 25ہزار افراد نماز ادا کر سکتے تھے۔فاطمہ الفہری نے 859 عیسوی میں اس مسجد میں قائم مدرسے کو '' جامعہ القرویین‘‘ (القرویین یونیورسٹی )میں بدل دیا۔ رفتہ رفتہ دنیا بھر سے علم و دانش کے پیاسے یہاں جوق درجوق کھچے چلے آئے۔ آج یہ دنیا کی ایک نامور یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اس یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جہاں یہ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی ہے، وہیں اسے یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی خالق ایک علم دوست مسلم خاتون فاطمہ الفہری ہے جس نے سب سے پہلے ''ڈگری‘‘ کے تصور کو رواج دیا۔ اس یونیورسٹی میں ریاضی، منطق ، ادویات ، فلکیات ، کیمیا، تاریخ ، جغرافیہ ، قرآن اور فقہ سمیت متعدد علوم میں اعلیٰ درجے کی تعلیم دی جاتی ہے۔یہ یونیورسٹی 18 سال کی مدت میں مکمل ہوئی جو اوّل تا آخر فاطمہ نے اپنی نگرانی میں مکمل کرائی۔ اس یونیورسٹی کا اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا اعزاز ہو گا کہ دنیائے علم و حکمت کے نامور دانشور ، ابن خلدون ، ابن میمون ، ابن رشد ، احمد اللہ الغماری ، محمد تقی الدین الہلالی ، محمد الوزان الفاسی ، عبدالکریم الخطابی ، محمد الادریسی ،ابن العربی ، امام البنانی، لسان الدین الخطیب وغیرہ بھی اسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔القیرویین یونیورسٹی صرف ام مسلمہ ہی کی یونیورسٹی نہیں تھی بلکہ یہاں بلا تفریق مذہب اور رنگ و نسل ہر مکتبہ فکر کو علم کی پیاس بجھانے کی اجازت تھی۔یہی وجہ ہے، اسے بحیرہ روم کی سب سے بڑی درس گاہ کہا جاتا ہے۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ کو صفر اور باقی عربی اعداد وشمار سے متعارف کرانے والے پاپائے روم پوپ سلوسٹر ثانی بھی اسی درس گاہ کے فارغ التحصیل ہیں۔اس یونیورسٹی کی دلچسپ اور منفرد بات یہ تھی کہ یونیورسٹی کی کلاسیں حلقے کی صورت میں لگتی تھیں ، ٹیچر درمیان میں بیٹھتے اور طالب علم دائرے کہ شکل میں اردگرد بیٹھتے تھے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ بھی تھی اگرچہ اس یونیورسٹی کی بنیاد ایک خاتون نے رکھی تھی لیکن سماجی اور روائتی بندھنوں کے سبب انہیں یہاں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ تھی۔ فاطمہ کی وفات کے بعد اگرچہ مراکش میں بہت ساری سلطنتوں کا تسلسل جاری رہا ، اچھی بات یہ ہے کہ ہر دور میں اس یونیورسٹی کی توسیع اور ترویج پر کام جاری رہا۔ 1349 عیسوی میں سلطان ابو عنان فارس نے اس یونیورسٹی میں ایک لائبریری کی بنیاد رکھی۔یہ دنیا کی قدیم ترین لائبریری تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ اس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ موطا امام مالک کا جانوروں کی کھال سے لکھا گیا نسخہ اور ابن خلدون کی کتاب ''العبار‘‘ کا نسخہ اصلی حالت میں اب بھی اس لائبریری میں موجود ہیں۔

 دوربین! جس نے کائنات کو دیکھنےکا انداز بدلا

دوربین! جس نے کائنات کو دیکھنےکا انداز بدلا

وینس، اٹلی کا بہت خوبصورت شہر ہے۔ وہاں ایک دن ایک آدمی سمندر کے کنارے ایک چھوٹی سی نلکی لئے کھڑا تھا۔ سیکڑوں آدمی اس کے چاروں طرف جمع تھے۔ ہر آدمی باری باری نلکی لیتا اور اسے آنکھ پر لگا کر سمندر کی طرف دیکھتا۔ یہ نلکی دنیا کی پہلی دوربین تھی۔ اس کی مدد سے انسان کئی میل دور کی چیزوں کو دیکھ سکتا تھا۔ یہ دوربین گلیلیو نے تیار کی تھی۔ایک مرتبہ گلیلیو وینس گیا۔ وہاں اس نے سنا کہ بیلجئم کے ایک آدمی نے ایک آلہ تیار کیا ہے۔ اس آلے کے ذریعے دور کی چیزیں بڑی نظر آتی ہیں۔ اس آلے میں یہ خرابی تھی کہ اس میں ہر چیز الٹی نظر آتی تھی۔ گلیلیو یہ بات سن کر دوربین بنانے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے دھات کی ایک چھوٹی سی نلکی لی اور نلکی کے دونوں سروں پر شیشے لگا دیئے۔ یہ تھی گلیلیو کی دپہلی وربین۔ اس سے کئی کئی میل دور کی چیزیں صاف اور سیدھی نظر آتی تھیں۔گلیلیو نے وینس کے بڑے بڑے لوگوں اور پروفیسروں کو یہ دوربین دکھائی۔ یہ لوگ سمندر کے کنارے کھڑے ہو گئے۔ سمندر میں بہت دور چند جہاز آ رہے تھے۔ دور ہونے کی وجہ سے یہ جہاز بس چھوٹے چھوٹے دھبے نظر آتے تھے۔ لوگوں نے دوربین سے ان جہازوں کی طرف دیکھا تو وہ بہت نزدیک اور صاف نظر آنے لگے۔ اتنے صاف کہ جہاز پر کھڑے ہوئے ملاح بھی صاف دکھائی دیتے تھے۔ دوربین کی ایجاد سے گلیلو کی شہرت بہت بڑھ گئی۔ وینس کے لوگ دوربین کو جادو کا کھلونا سمجھتے تھے۔ دور دور سے لوگ دوربین کو دیکھنے کیلئے گلیلیو کے پاس آتے۔ یہ لوگ گلیلیو سے درخواست کرتے کہ وہ ان کیلئے بھی ایک دوربین بنا دے۔ گلیلیو نے چند کاریگروں کو ملازم رکھ لیا اور دوربین بنا کر بیچنے لگا۔گلیلیو اپنی دوربین کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ کچھ عرصے بعد اس نے ایسے شیشے تیار کر لئے جن سے دوربین کی طاقت بہت بڑھ گئی۔ اس نے ایک ایسی دوربین بھی بنائی جس میں دور کی چیزیں تیس گنا بڑی نظر آتی تھیں۔ گلیلیو نے ایک اور آلہ تیار کیا جسے خوردبین کہتے ہیں۔ یہ آلہ دوربین ہی کے اصول پر بنایا گیا تھا۔ اس کے ذریعے نزدیک کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بہت بڑی نظر آتی تھیں۔ اس کے شیشے اتنے طاقتور تھے کہ آدمی کے بال کو جب ان شیشوں سے دیکھا جاتا تو وہ ایک موٹی رسی کے برابر نظر آتا تھا۔ اس خوردبین کے ذریعے بعد میں مشہور سائنسدانوں نے بیماریوں کے جراثیم کا پتہ چلایا۔ اور انسان کے خون میں ان ننھے منھے ذرات کو دیکھا جو بیماری کے جراثیم کا مقابلہ کرتے ہیں۔ خوردبین ہی کی مدد سے سائنسدانوں نے بہت سی بیماریوں کو دور کرنے والی دوائیں ایجاد کیں۔ گلیلیو کی بنائی ہوئی دوربین اور خوردبین میں سائنسدانوں نے بہت سی اصلاحات کیں۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں اب ستاروں کا مشاہدہ کرنے والی بڑی بڑی رصد گاہیں موجود ہیں۔ جہاں طاقتور دوربینیں لگی ہوئی ہیں۔ ان دوربینوں کی مدد سے انسان نے مختلف سیاروں اور ستاروں کے فوٹو لئے ہیں اور یہ معلوم کر لیا ہے کہ چاند سورج اور دوسرے ستارے زمین سے کتنی دور ہیں۔ انہی دوربینوں کی مدد سے سائنسدانوں نے خلا میں پرواز کرنے کے متعلق معلومات اکٹھی کیں۔ ان معلومات کی بدولت آج انسان خلاء کو تسخیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس زمانے میں چاند سورج اور ستاروں کے متعلق انسان کو صحیح باتیں معلوم نہ تھیں۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ زمین ایک جگہ ٹھہری ہوئی ہے۔ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ چاند اور ستارے کسی چمکدار دھات کے چھوٹے بڑے ٹکڑے ہیں جنہیں آسمان پر جڑ دیا گیا ہے۔ کہکشاں کے متعلق یہ مشہور تھا کہ یہ آسمان پر ایک راستہ ہے جس پر دیوتا چلتے ہیں۔ گلیلیو اپنی طاقتور دوربین سے سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھتا رہتا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اس ساری کائنات کا مرکز سورج ہے، کہکشاں دیوتائوں کا راستہ نہیں ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں ستاروں کا جھرمٹ ہے۔ یہ ستارے زمین سے بہت دور ہیں۔چاند سورج اور ستاروں کے متعلق اس زمانے کے پادریوں اور پروفیسروں نے جو باتیں مشہور کر رکھی تھیں، گلیلیو نے ان سب کو غلط کردیا۔ گلیلیو کی ان باتوں سے پادری اس کے دشمن ہو گئے۔ پادریوں کی مخالفت کی وجہ سے گلیلیو وینس چھوڑ کر ایک چھوٹے سے شہر فلورنس میں اپنی بیٹی کے پاس چلا گیا۔ گلیلیو اب بوڑھا ہو گیا تھا۔ اس کی بیٹی اپنے باپ کی بہت خدمت کرتی تھی۔گلیلیو اطمینان کے ساتھ ستاروں کے متعلق اپنی تحقیقات میں مصروف ہو گیا۔ دور دور سے نوجوان طالب علم گلیلیو کے پاس تعلیم حاصل کرنے کیلئے آنے لگے۔ پادریوں کو جب معلوم ہوا کہ گلیلیو کے خیالات تیزی سے پھیل رہے ہیں تو انہوں نے گلیلیو پر یہ الزام لگایا کہ وہ اپنے مذہب سے بھٹک گیا ہے اور لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ گلیلیو پر بے دینی کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔ گلیلیو کی موت کے بعد دوسرے سائنس دانوں نے اس کے نظریات پر غور کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ گلیلیو ٹھیک کہتا تھا۔آپ نے روسی ہوا باز یجر گیگارین کا نام سنا ہوگا۔ گیگارین پہلا انسان ہے جس نے خلا میں پرواز کی اور زمین کے گردچگر لگایا۔ کیا آپ اس آدمی کا نام بتا سکتے ہیں جس نے پہلی بار خلا میں جھانک کر دیکھا تھا؟ یہ گلیلیو تھا۔ کچھ عرصے بعد جب پہلا انسان چاند پر پہنچے گا تو وہ اپنی آنکھوں سے ان پہاڑوں کو دیکھ لے گا جن کا انکشاف آج سے چار صدیاں قبل گلیلیو نے کیا تھا۔

 ہوم گراؤنڈ پر 4سال بعد ٹیسٹ میں کامیابی

ہوم گراؤنڈ پر 4سال بعد ٹیسٹ میں کامیابی

پاکستان کرکٹ ٹیم نے ملتان کا بدلہ ملتان میں ہی چکا دیا،دوسرا ٹیسٹ جیت کر تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک ایک سے برابر کر دی۔ راولپنڈی میں ہونے والا ٹیسٹ اگر فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے تو جیتنے والی ٹیم سیریز بھی جیت جائے گی۔

غرور کی سزا

غرور کی سزا

بارہ سالہ ماہین ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ وہ بہت ذہین اور اچھے دل کی مالک تھی۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے پورے خاندان میں اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔

لہسن

لہسن

لہسن بھی ہے بچو! بڑی تعریف کے قابل ثانی کوئی اس کا نہ کوئی مدمقابل پوچھو جو حکیموں سے وہ تعریف کریں گےشاعر بھی سدا اس کے قصیدے ہی پڑھیں گے

ذرامسکرایئے

ذرامسکرایئے

ایک بچہ مزاحیہ بات پر تین مرتبہ ہنستا تھا، کسی نے اس سے پوچھا’’تم ہر مذاق پر تین مرتبہ ہنستے ہو، آخر اس کی وجہ کیا ہے‘‘؟ بچے نے جواب دیا: ’’ ایک مرتبہ لوگوں کے ساتھ ہنستا ہوں، دوسری مرتبہ جب میری سمجھ میں آتا ہے تب ہنستا ہوں اور تیسری مرتبہ اپنی بے وقوفی پر ہنستا ہوں‘‘۔٭٭٭

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز