اسلام آباد: (دنیا نیوز) عدالت نے حسن اور حسین نواز کو ایون فیلڈ، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں بری کر دیا۔
اسلام آباد: (دنیا نیوز) عدالت نے حسن اور حسین نواز کو ایون فیلڈ، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں بری کر دیا۔
اسلام آباد(خصوصی نیوز رپورٹر)پاکستان نے افغانستان میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد وں کو ہدف بناتے ہوئے آپریشن کیا جبکہ شمالی وزیرستان میں کارروائی کے دوران میر علی میں سکیورٹی فورسز کی چوکی پر دہشتگردانہ حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث انتہائی مطلوب کمانڈر سمیت 8 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا۔
کراچی(اے پی پی ،مانیٹرنگ ڈیسک)سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کر دیا۔ سٹیٹ بینک کے اعلامیے کے مطابق ستمبر 2025ء تک مہنگائی 5 سے 7 فیصد تک لانے کے لیے موجودہ پالیسی کا تسلسل ضروری ہے۔
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،دنیا نیوز)امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے صدر آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے الگ الگ ملاقات کی۔
لاہور(اے پی پی)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور قائد مسلم لیگ ن محمد نواز شریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس ہوا جس میں کسانوں کو ٹیوب ویل کے لئے سولر پینل دینے کا اصولی فیصلہ کرتے ہوئے جامع پلان طلب کرلیا گیا۔
علامہ ابن خلدون کو فلسفۂ تاریخ کا موجد و بانی ہی نہیں تسلیم کیا جاتا بلکہ عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے کئی مبادی اصول بھی اُن سے منسوب ہیں۔ ان کے اجداد نے یمن سے اندلس کے شہر قرمونہ ہجرت کی تھی۔ بعد میں وہ تیونس پہنچے اور وہیں اس خاندان کے ایک گھرانے میں 27 مئی 1332ء کو ابن خلدون نے آنکھ کھولی۔ محققین کے مطابق ابن خلدون کے خاندان میں علم و دانش کا چرچا تھا اور علّامہ نے بھی جیّد علمائے کرام کی صحبت سے فیض اٹھایا۔ حفظ قرآن اور ضروری دینی تعلیم کے ساتھ انھوں نے باقاعدہ علومِ اصول و فقہ کی تعلیم حاصل کی اور پھر فلسفہ، منطق، ریاضی اور لسانیات کا درس لیا۔ابن خلدون وہ پہلا شخص ہے جس نے تاریخ پر ایک مستقل سائنس کی حیثیت سے قلم اٹھایا اور یہ حقیقت اس کی معرکہ آرا تصنیف'' مقدمہ ابن خلدون‘‘ کے سرسری مطالعہ سے واضح ہو جاتی ہے۔ مابعد الطبیعات اور ایسے دیگر مسائل میں ابن خلدون عقل و خرد پراعتماد نہیں کرتا بلکہ الہام اور وجدان پر تکیہ کرتا ہے۔ ابن خلدون تاریخ کے اصول تاریخی حقائق کی مدد سے وضع کرتا ہے، علاوہ ازیں اس کی بصیرت افروز نظر کمال ہوشیاری سے سماجی مسائل کی گہرائیوں تک اُتر جاتی ہے اور وہ ان کے باہم ربط و دیگر کوائف کا سراغ لگانے میں خداداد ملکہ رکھتا ہے۔''مقدمہ‘‘ علّامہ ابن خلدون کی علمیت اور قابلیت کا ایک شاہکار ہے۔ مصنّف کو اسلامی تاریخ کی ایک عبقری شخصیت مانا جاتا ہے جنھیں مغرب اور دنیا بھر میں آج بھی ان کے علم و فضل اور تصانیف کی وجہ سے بڑا امتیاز حاصل ہے۔''مقدمہ ابن خلدون‘‘ دیباچہ تمہید اور چھ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں اس نے فلسفہ ٔتاریخ سے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تاریخ بادشاہوں، سلطنتوں اورجنگوں ہی کا نام نہیںبلکہ تاریخ نام ہے ان وجوہات کے تجسس اور تفتیش کا جو سماجی انقلابات اور اقوام عالم کے رستخیز کے عقب میں کار فرما رہتی ہیں۔ تاریخ پر اس نقطہ نگاہ سے بحث کرنے سے ابن خلدون کا مقصد تاریخ کو ایک محدود اور تنگ دائرے سے اٹھا کر سائنس کے بلند اور ارفع مقام پر لاکھڑا کرتا ہے اور یہ وہ مقصد ہے جسے ابن خلدون کے اپنے الفاظ میں'' پہلے کسی مصنف نے مستقل، منظم اور علمی طور پر سرانجام دینے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی‘‘۔''مقدمہ ابن خلدون‘‘ کی تمہید کا بیشتر حصہ مورخین کی تاریخی لغزشوں کی پردہ دری پر مشتمل ہے اور حیرت کا مقام ہے کہ ابن خلدون جب کسی مورخ کی تحقیقات کو تنقید کی زد میں لاتا ہے تو وہ اس کے بطلان اور اثبات کے لئے جو اصول اور معیار وضع کرتا ہے وہ کم و بیش وہی ہیں جو دورِ حاضر کے نقاد ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ابن خلدون نے نوجوانی میں ہجرت بھی کی اور سیّاحت کا شوق بھی پورا کیا جس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیکھنے سکھانے کا مشغلہ بھی جاری رکھا، گھومنے پھرنے کے شوق اور مطالعہ کے ساتھ غور و فکر کی عادت نے انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا اور سیاحت کے دوران وہ جن مختلف شاہانِ وقت اور امرا سے ملے، وہ ان کی شخصیت اور فکر سے متاثر ہوئے۔ وہ بڑی عزت اور شرف سے نوازے گئے اور مختلف منصب پر فائز ہوئے۔ لیکن اسی عرصہ میں ابن خلدون اپنے بعض نظریات اور خیالات کے سبب مطعون بھی کیے گئے اور ان کے حاسدین اور مخالفین نے ان کو قید خانے میں بھی پہنچانے میں اپنا منفی کردار ادا کیا۔محققین کے مطابق علّامہ ابن خلدون کی کئی کتابوں کا آج نام و نشان بھی نہیں ملتا، لیکن مقدمہ ابن خلدون کا یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اہل علم اسے دنیا کی چند بڑی بڑی کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔ '' تاریخ ابن خلدون‘‘ کے علاوہ انھوں نے روزنامچے اور مشاہدات بھی رقم کیے ہیں۔خلافتِ عبّاسیہ کے زمانے میں جب علّامہ ابنِ خلدون اسکندریہ اور بعد میں قاہرہ گئے تو انھیں شہرہ آفاق جامعہ ازہر میں مدرّس مقرر کر دیا گیا۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تیونس سے قاہرہ اپنے پاس بلوایا، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سب جس جہاز میں سوار تھے، اسے سمندر میں حادثہ پیش آیا جس میں اہلِ خانہ لقمہ اجل بن گئے۔ اس حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد صدمے سے دوچار ابنِ خلدون نے فوری سب کچھ چھوڑ کر حج کا قصد کیا۔ تاریخی تذکروں میں آیا ہے کہ وہ ایک سال مکّہ مکرمہ میں رہے اور پھر مصر لوٹے جہاں 1406ء میں ان کا انتقال ہوا۔ بعض کتابوں میں ان کی تاریخ وفات 16 اور بعض جگہ 19 مارچ لکھی ہے۔ عالم اسلام کے اس مشہور و معروف مؤرخ، فقیہ اور فلسفی کے علمی کارنامے آج بھی دنیا کے مفکرین، قابل شخصیات کے درمیان زیر بحث آتے ہیں۔ابن خلدون کو اگر محض ایک مورخ کی حیثیت سے لیا جائے تو خود عربوں میں اس سے کہیں برتر اور فائق مصنفین کا وجود مل سکے گا لیکن ہم تاریخ کے واضح اصول کے اعتبار سے اس کی برتری مسلمہ امر ہے۔ جدت طرازی‘ فکری گہرائی اور وسعتِ نظر وہ امتیازی خصوصیات ہی جن میں ان خلدون کی عظمت کا راز مضمر ہے، جس طرح دانتے کو دنیائے شاعری کا شہنشاہ مانا جاتا ہے، اسی طرح ابنِ خلدون فلسفہ ٔتاریخ کا پیشواہے۔جہاں تک سائنس اور فلسفۂ تاریخ کا تعلق ہے عربی لٹریچر میں ابن خلدون کا نام بقائے دوام کی سند حاصل کر چکا ہے۔ ازمنہ متوسط میں اگر چراغ لے کر بھی ڈھونڈا جائے تو دنیائے کلیسا میں اس پائے کا فاضل آدمی نہ مل سکے گا۔
رمضان میں لگ بھگ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ روزہ رکھے، چاہے وہ بیماری کا ہی شکار کیوں نہ ہو اور ان میں ذیابیطس کے مریض سرفہرت ہوتے ہیں۔انٹرنیشنل ڈائیبیٹس فیڈریشن کی ایک تحقیق کے مطابق ذیابیطس ٹائپ ٹو کے 93 فیصد مریض کم از کم 15 دنوں تک روزہ رکھتے ہیںچونکہ یہ میٹابولک مرض ہوتا ہے لہٰذا اس کے شکار افراد میں کھانے اور پینے کے اوقات میں تبدیلی سے پیچیدگیوں کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جبکہ ڈی ہائیڈریشن، بلڈ شوگر میں کمی سمیت کئی خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں، تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے شکار افراد روزہ رکھنے کی صورت میں پورے مہینے اپنے شوگر لیول کو مسلسل مانیٹر کرتے رہیں۔دبئی ہیلتھ اتھارٹی کے سمارٹ کلینک کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور اس حوالے سے مختلف فتوے بھی موجود ہیں جبکہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریضوں کو روزے رکھنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہئے تاکہ اس کے اثرات پر قابو پایا جا سکے۔ ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے شکار افراد کا شوگر لیول اگر 70 سے نیچے آجائے تو انہیں روزہ توڑ دینا چاہئے۔ شوگر لیول میں اضافے کے مقابلے میں کمی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، جن لوگوں کا شوگر لیول 70 سے نیچے گر جائے انہیں فوری طور پر روزہ توڑ دینا چاہئے، اسی طرح جن کی گلوکوز ریڈنگ 300 سے تجاوز کر جائے وہ بھی روزہ توڑ کر بہت زیادہ پانی استعمال کریں اور ڈاکٹر سے رجوع کریں۔شوگر لیول میں کمی کی صورت میں لوگوں کو بہت زیادہ پسینہ آنے، سردی لگنے، انتہائی شدید بھوک، بینائی دھندلانے، دل کی دھڑکن کی رفتار میں تیزی اور سر چکرانے جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب شوگر لیول میں اضافے کی صورت میں مریض کو خشکی اور بار بار پیشاب کی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔طبی ماہرین نے ایسے افراد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پروٹین اور فائبر سے بھرپور غذا کا استعمال کریں جبکہ میٹھے کھانوں اور کیفین سے گریز کریں۔ ذیابیطس کے مریض رمضان کے دوران ہر قسم کی غذا کا استعمال کر سکتے ہیں بس یہ خیال رکھیں کہ وہ متوازن غذا ہو۔ تاہم ماہرین نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ روزے کے دوران بلڈ شوگر کی سطح کو مسلسل مانیٹر کرتے رہیں کیونکہ یہ بہت ضروری ہے۔
آلو پاپڑی چاٹ اجزاء: آلو،آدھا کلو (چھوٹے)۔پاپڑی، چھ عدد (چورا کی ہوئی)دال سیو، ایک پیکٹ۔ تیل، ایک چوتھائی ۔کپ کڑی پتے، آٹھ سے دس عدد۔زیرہ۔ایک کھانے کا چمچ۔رائی۔ آدھا چائے کا چمچ۔نمک، حسب ذائقہ۔لال مرچ، ایک چوتھائی چائے کا چمچ۔ہلدی، ایک چائے کا چمچ۔املی کا گودا، ایک چوتھائی کپ۔چاٹ مصالحہ۔، ایک چوتھائی چائے کا چمچ۔ہری مرچچار عدد۔ترکیب: پہلے آلووئوں کو چھیل کر اْبال لیں۔ اب ایک پین میں ایک چوتھائی کپ تیل گرم کرکے اس میں کڑی پتہ، زیرہ اور رائی ڈال کر فرائی کریں۔ ساتھ ہی اس میں نمک، لال مرچ، ہلدی اور املی کا گودا ڈال کر تھوڑا بھونیں۔ اس کے بعد اس میں آلو، چاٹ کا مصالحہ اور ہری مرچ شامل کرکے مکس کریں اور پھر اْتار لیں۔ اب اسے ڈش میں نکال کر چورا کی ہوئی پاپڑی اور دال سیو ڈال کر پیش کریں۔لیموں اور پودینے کا شربتاجزاء: سوڈا واٹر ، ایک بوتل۔کٹی ہوئی کالی مرچ ،ایک چٹکی۔برف، ایک پیالی۔پودینے کی پتیاں، ایک پیالی۔براؤن چینی ، ایک کھانے کا چمچ۔کالا نمک ،آدھا چائے کا چمچ۔لیموں کا رس ،چار کھانے کے چمچ۔پودینے کے پتے سجانے کیلئے۔ترکیب:بلینڈر میں تمام اجزا یکجان کر لیں، اسے گلاسوں میں ڈالیں اور پودینے کے پتوں سے سجا کر پیش کریں۔
''طابا‘‘ میں مصری جھنڈا لہرا یا گیا1989ء میںآج کے روز مصر اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی وجہ بننے والے شہر طابا میں مصری جھنڈا لہرایا گیا۔ اس شہر کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بھی ہوئی جسے عرب اسرائیل جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس جنگ کے اختتام پراس شہر میں مصری جھنڈا لہرا ہا گیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ شہر مصر کی ملکیت ہے۔ یہ شہر مصر کے شمال میں واقع ہے اور اس کی سرحد اسرائیل سے ملتی ہے۔ یہ شہر ہمیشہ ہی تنازعات کی زد میں رہا ہے۔عراق میں بم دھماکے19مارچ 2013ء کو عراق کے دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے شمالی و وسطی حصوں میں بم دھماکوں اور فائرنگ کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ ان پرتشدد واقعات میں 98 افراد ہلاک اور 240 سے زائد زخمی ہوئے۔ دھماکوں اور فائرنگ کی وجہ سے ملک بھر کی سکیورٹی صورتحال خراب ہو گئی اور حکومت مخالف گروپس نے احتجاج شروع کر دیا۔ان دھماکوں کی ذمہ داری عراق کے عسکریت پسند گروہ نے قبول کی۔ افغانستان:فضائی حادثہ 1998 ء میں آج کے روز افغانستان کی ائیر لائن آریانہ کا جہاز بوئنگ727کابل ایئرپورٹ کے قریب حادثہ کا شکار ہوا۔جس میں 45افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ تحقیقات میں فنی خرابی اور کنٹرول ٹاور سے رابطے میں کمزوری کو حادثے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔اس حادثے کو دنیا کے بدترین فضائی حادثات میں شمار کیا جاتا ہے۔ہٹلر نے نیرو ڈکری کا اعلان کیا1945ء میںایڈولف ہٹلر نے جرمنی کے تعلیمی ادارے، فیکٹریاں ، چھوٹے کارخانے، دفاتر اور سڑکوں کو تباہ کرنے کا حکم دیا، جسے ''نیروڈکری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1945ء میں پے درپے شکستوں کے بعد جرمنی کے حالات ابتر ہو گئے تھے ۔ اتحادی افواج جرمنی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں ۔ ہٹلر نے یہ حکم اس لئے دیا تھا تاکہ اتحادی افواج جرمنی کے تعمیراتی دھانچے کو استعمال نہ کر سکیں۔''سڈنی ہاربر برج ‘‘کا افتتاح1932ء میں آسٹریلیا کے مشہو ر ''سڈنی ہاربر برج کا افتتاح کیا گیا۔ یہ سٹیل کا مضبوط پل ہے جو سڈنی ہاربر کو سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ سے ملاتا ہے۔ اسے دنیا میں زیادہ شہرت اس لئے بھی حاصل ہے کہ اگر پل کے ایک جانب کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو پل اور آسٹریلیا کا مشہور سڈنی اوپرا ایک ہی فریم میں نظر آتے ہیں۔ اس کے ڈیزائن کی وجہ سے اسے وہاں کے لوگ کوٹ ہینگر بھی کہتے ہیں ۔
نویں پارے کے شروع میں قومِ شعیب علیہ السلام کے سرکش سرداروں کی اس دھمکی کا ذکر ہے کہ اے شعیب! ہمارے دین کی طرف پلٹ آؤ‘ ورنہ ہم تمہیں اور تمہارے پیرو کاروں کو جلاوطن کر دیں گے۔ شعیب علیہ السلام نے اللہ سے التجاکی کہ اے اللہ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے‘ پھر اُن پر قومِ ثمود کی طرح عذاب نازل ہوا اور وہ ایسے نیست و نابود ہوئے کہ جیسے کچھ تھاہی نہیں۔
نویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الاعراف سے ہوتا ہے۔ آغاز میں حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ اُن کی قوم کے لوگ مال کی محبت میں اندھے ہو کر حرام و حلال کی تمیز بھلا چکے تھے۔ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اُنہیں پورا تولنے اور پورا ماپنے کا حکم دیا تو انہوں نے ایک دوسرے کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) کی پیرو ی کی تو گھاٹے میں پڑ جائو گے۔
رسول کریمﷺ سے کفار طرح طرح کے مطالبے کرتے تھے کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے، جب فرشتے ہمارے پاس اتر کر آئیں یا برزخ و آخرت کے بارے میں آپ جو باتیں ہمیں بتاتے ہیں، ہمارے جو لوگ مرچکے ہیں، وہ زندہ ہو کر آئیں اور آپ کے دعوؤں کی تصدیق کریں، قرآن مجید نے بتایاکہ اُن کی یہ ساری باتیں جہل پر مبنی اور انکارِ حق کیلئے محض بہانے بازی ہے۔
آٹھویں پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے بات کرنے لگتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لا کھڑا کر دیتے تو بھی وہ ایمان لانے والے نہیں تھے، سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب مشرکینِ مکہ اور کفارِ عرب نے رسول کریمﷺ سے مختلف طرح کی نشانیوں کو طلب کرنا شروع کیا۔
شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔
شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات
شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔