راولپنڈی: (دنیا نیوز) بانی پی ٹی آئی عمران خان کو احتجاج کے 7 مقدمات میں گرفتار کرلیا گیا۔
راولپنڈی: (دنیا نیوز) بانی پی ٹی آئی عمران خان کو احتجاج کے 7 مقدمات میں گرفتار کرلیا گیا۔
اسلام آباد (وقائع نگار، خصو صی نیوز رپورٹر) وزارت داخلہ نے واضح کیا ہے کہ تحریک انصاف کے مظاہرین، پُرتشدد ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے اسلحہ کا استعمال نہیں کیا گیا،فوج کا ہجوم سے براہ راست ٹکراؤ نہیں ہوا ، 1500 تر بیت یافتہ شر پسندوں اورافغانیوں نے اہلکاروں پر حملہ کیا ۔
اسلام آباد ، لاہور (نامہ نگار ، سپیشل کرائم رپورٹر ، خبرنگار سے ، نمائندہ دنیا )سکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے 2مختلف اضلاع میں کامیاب کارروائیاں کرتے ہوئے 8خارجی دہشت گردوں کو ہلاک اور 9 کو زخمی کر دیا۔
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ویژن کیمطابق ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ شوگر کے پیدائشی مریض بچوں کیلئے مفت انسولین فراہمی کا پراجیکٹ کا لانچ کر دیا گیا۔
اسلام آباد(خصوصی نیوز رپورٹر)ترجمان تحریک انصاف نے وزارتِ داخلہ کے بیان کے ردعمل میں کہا کہ 26 نومبر ملکی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک ہے ،مینڈیٹ چور غاصب سرکار کو قتلِ عام کا حساب دینا ہوگا۔
لاہور(دنیا نیوز)پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ مراد سعید سے متعلق بیان خیبرپختونخوا حکومت کیخلاف بہت بڑی سازش ہے۔ دنیا نیوزکے پروگرام ’’ٹونائٹ ود ثمرعباس‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ حکومت کوانتقام کے بجائے سیاسی نظر سے پی ٹی آئی کو دیکھنا چاہیے ۔
لاہور(سیاسی نمائندہ)الخدمت فاؤنڈیشن کے زیراہتمام خصوصی افراد کے عالمی دن کی مناسبت سے ملک بھر میں آگاہی تقریبات کا انعقاد ،منصورہ میں مرکزی تقریب میں معذور افراد کو ویل چیئرز، نابینا افراد کوچھڑیاں اورتحائف دیئے گئے ۔
کراچی،(سٹاف رپورٹر، نمائندگان دنیا) کراچی سمیت سندھ بھر میں اتوار کو یوم سندھی ثقافت جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ اس موقع پر کراچی، سکھر،حیدرآباد،میرپور خاص،پنگریو ،کندھ کوٹ ، لاڑکانہ ، بدین،ٹھٹھہ ، میرپور ساکرو ،ٹنڈومحمد خان، ٹنڈوآدم،شہداد کوٹ ، جھڈو ،جیکب آباد ،روہڑی سمیت مختلف شہروں اور دیہات میں ریلیاں نکالی گئیں اورتقریبات کا ا نعقاد کیاگیا۔
فیصل آباد(خصوصی رپورٹر)سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تقریب تقسیم انعامات و اسناد میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
دنیا بھر کے سربراہان مملکت سمیت نامور شخصیات کی رہائش گاہوں کو مخصوص ناموں سے تاریخ میں ہمیشہ بڑی اہمیت رہی ہے۔جیسے فرانسیسی صدر کی رہائش گاہ '' ایلیسی محل‘‘ ،چین کے صدارتی محل کو ''ژونگ نان ہائے‘‘، برطانوی ملکہ کی رہائش گاہ ''بکنگھم پیلس‘‘ جبکہ برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ ''ٹن ڈائوننگ سٹریٹ‘‘ ، کراچی کا مہٹہ پیلس جو محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش گاہ کے باعث ''فاطمہ پیلس‘‘کہلایا جانے لگا۔ امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کو '' وائٹ ہاوس‘‘کی شہرت حاصل ہے۔دنیا کی بعض نامور شخصیات ایسی بھی ہیں جن کی ذاتی رہائش گاہوں کو بھی تاریخی شہرت حاصل ہوئی، جیسے علامہ اقبالؒ کی ذاتی رہائش گاہ کو ''جاوید منزل‘‘ ، امریکی صدر ڈونلڈ جان ٹرمپ کی ذاتی پرتعیش رہائش گاہ کو ''مار اے لاگو ‘‘ کہا جاتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس لحاظ سے شاید خوش قسمت تصور ہوں گے کہ امریکی تاریخ میں وہ دوسرے صدر ہیں جو ایک سو بیس(120) سال قبل گروور کلیولینڈ کے بعد دو بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ امریکہ کے صدر ہی نہیں بلکہ ذاتی زندگی میں ایک سیاست دان ، میڈیا پرسن اور پراپرٹی ٹائیکون بھی ہیں۔دولت مند ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت جہاں ان کی جارحانہ طبیعت کی شہرت رکھتی ہے، وہیں ان کا شاہانہ طرز زندگی بھی اکثر موضوع بحث بنا رہتا ہے۔ فلوریڈا کے '' پام بیچ‘‘پر واقع ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ وسیع و عریض گھر '' مار اے لاگو‘‘ جو ایک کلب پر بھی مشتمل ہے ، ہر اس سہولت سے آراستہ ہے جس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ قلعہ نما یہ ریزورٹ ڈونلڈ ٹرمپ نے 1980ء میں اس وقت خریدا تھا جب یہ ایک گمنام مالدار شخصیت تھے لیکن اتنے بھی مالدار نہ تھے جتنے اب ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد فلوریڈا میں واقع ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ رہائش گاہ سیاسی طور پر عالمی طاقت کا ایک نیا مرکز بن چکی ہے۔امریکی صدارتی انتخابات سے کچھ ہی عرصہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ دو بار قاتلانہ حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ان پر پہلا حملہ رواں سال جولائی میں امریکی ریاست پینسلونیا میں ان کی انتخابی مہم کی ریلی کے دوران ہوا تھا جبکہ تقریباً دو ماہ بعد ان پر دوسرا حملہ مارا ے لاگو کے گولف کورس میں ہوا تھا۔واضح رہے کہ ان قاتلانہ حملوں کے بعد سے امریکی حکومت نے انہیں خصوصی سکیورٹی دینا شروع کر دی ہے اور وہ ہمیشہ ہائی الرٹ رہتے ہیں۔ جنوری 2005ء کے بعد اقتدار سنبھالنے کے بعد یقینی طور پر ان کی سکیورٹی میں ممکنہ حد تک مزید اضافہ بھی کر دیا جائے گا۔ حال ہی میں دنیا بھر کے میڈیا ہاوسز سمیت معروف برطانوی اور امریکی نشریاتی ادارے جہاں ''مار اے لاگو‘‘ کے سیاسی اجتماعات کی دلچسپ انداز میں لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کرتے نظر آتے ہیں، وہیں وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ٹرمپ کی فتح کے بعد نئی انتظامیہ کا حصہ بننے کے خواہشمندوں سمیت امریکہ کی بااثر ترین شخصیات اس وقت مار اے لاگو کے گرد منڈلاتی نظر آتی ہیں۔ اسی کے ساتھ مبصرین اور محققین اپنے ناظرین اور سامعین کو یہ یاد کراتے بھی نظر آتے ہیں کہ یہ وہی پررونق مقام ہے جہاں ٹھیک دوسال پہلے امریکی ایف بی آئی نے چھاپہ مارا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اسے یہاں سے جوہری ہتھیاروں سمیت جاسوسی سیٹلائٹ سے متعلق حساس نوعیت کی خفیہ دستاویزات ملی ہیں۔ سکیورٹی انتظامات اور روبوٹ کتا مار اے لاگو کے سکیورٹی انتظامات اگرچہ ایک قلعہ کی مانند ہیں تاہم امریکی انتظامیہ اس مرتبہ مستقبل قریب کے اپنے ایک صدر کی سکیورٹی پر کسی قسم کی کوتاہی پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خاندانی ذرائع کے بقول ''صدر ٹرمپ مسند صدارت سنبھالنے کے بعد طاقت کا مرکز مار اے لاگو نہیں چھوڑیں گے بلکہ وہ دوسرے دور صدارت میں زیادہ وقت فلوریڈا کے اس ریزورٹ میں گزارنا پسند کریں گے‘‘۔ اس دفعہ امریکی سیکرٹ سروس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے سکیورٹی کے انتظامات کو ترجیح دیتے ہوئے روبوٹ کتے بنانے والی کمپنی ''بوسٹن ڈائنامکس‘‘کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس کمپنی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سکیورٹی کیلئے '' سپوٹ‘‘ نامی ایک خصوصی روبوٹ کتا تیار کیا ہے۔اس سلسلے میں سکیورٹی اینڈ رسک مینجمنٹ کمپنی ''ٹیلون کمپنیز ‘‘ کے سی ای او رون ولیمز کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے خلاف قاتلانہ حملوں کے بعد سیکرٹ سروس ایجنسی کو محسوس ہوا کہ اسے ٹیکنالوجی کو مزید جدید اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ہونے والے حملوں بارے پتہ لگایا جا سکے اور بروقت ان پر قابو بھی پایا جا سکے۔رون ولیمز نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ انسانوں کے مقابلے میں یہ روبورٹ کتے ایک وسیع رقبے پر بہتر انداز میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ مستقبل قریب میں یہ کتے بیشتر اہم مقامات پر سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالے نظر آئیں گے۔ رون ولیمز نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ روبوٹ کتے پہلے ہی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ افواج میں بھی کامیابی سے سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی سال گزشتہ سے ان کتوں کو اپنی فورس میں شامل کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا کے پام بیچ میں، مار اے لاگو ریزورٹ کے آس پاس گشت کرتا یہ منفرد کتا اور کشتیوں پر گشت کرتے چاق و چوبند مسلح محافظ پچھلے کچھ عرصہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔75 ہزار ڈالر یعنی 2 کروڑ روپے مالیت کا ''سپوٹ‘‘ نامی یہ روبوٹ کتا متعدد کیمروں اور تھرمل سینسرز سے آراستہ ہے۔یہ روبوٹ کتا سیڑھیاں چڑھ سکتا ہے، اتر بھی سکتا ہے، تنگ جگہوں سے گزرنے کی صلاحیت کے علاوہ یہ بند دروازوں کو کھول بھی سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ عام انسانوں کی مانند رسپانس بھی دیتا ہے۔ یہ کتا عام کتوں سے زیادہ تیز رفتار ، پھرتیلا اور چوکس ہے۔اس کتے کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ سکیورٹی کیمروں سے لیس یہ کتا اپنے ارد گرد کے تھری ڈی نقشے بھی بنا سکتا ہے۔ اس منفرد اور قلعہ بند سکیورٹی انتظامات کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ عالمی طاقت کے اس نئے مرکز میں ان دنوں دنیا کی بڑی بڑی شخصیات بھی قیام پذیر ہیں، جن میں دنیا کے امیر ترین شخص اور ٹیسلا سمیت ''ایکس‘‘ کے مالک ایلون مسک ،امریکہ کے ایک بڑے سیاسی خاندان کی شخصیت رابرٹ کینیڈی، بل گیٹس اور ایل گور سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کے متعدد دوست بھی مار اے لاگو میں یا تو رہائش پذیر ہیں یا ان کا طاقت کے اس مرکز میں آنا جانا لگا ہوا ہے۔ یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ سکیورٹی جیسے حساس مسئلے کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی ، انسانی روائتی طریقوں سے کس حد تک بہتر ہے۔
تعارف: ثابت بن قرہ حرانی ہیئت کا ماہر اور فن طب میں علم تشریح الابدان میں باکمال فلسفی اور طبیب تھا۔ علم الاعداد میں موافق عددوں کے درمیان استخراج کے اہم کلیہ دریافت کئے اور موافق عددوں کے جوڑے معلوم کرنے کے لئے ایک کلیہ اور اصول قائم کیا۔ اجزائے ضربی اور اجزائے مرکبہ کے فرق کو بتایا۔اس ماہر ہیئت داں نے رصد گاہ بھی تعمیر کر لیا تھا۔ بیت الحکمۃ کے طرز پر علمی ادارہ بھی قائم کیا تھا۔ حکومت وقت نے علم ہیئت سے متعلق اداروں کا اسے نگراں مقرر کیا تھا۔ اپنی زندگی میں اس نے بہت سے اچھے اچھے کام کئے اور علوم و فنون کو ترقی دی۔ ابتدائی زندگی‘ تعلیم و تربیت ثابت بن قرہ حرانی اچھا طبیب اور علم تشریح الابدان کا ماہر تھا۔ علم ریاضی میں اس نے کئی نئے کلیے (قاعدہ، اصول) دریافت کئے۔ثابت حران کا باشندہ تھا۔ حران شمالی عراق میں ایک مردم خیزعلاقہ تھا۔ یہاں کے باشندوں میں بعض بہت مشہور اور قابل لوگ گزرے ہیں۔ ثابت کا خاندان بھی علمی خاندان تھا۔ ثابت عرب خاندان سے تھا۔ اس کا آبائی پیشہ صرانی تھا۔ ثابت نے تعلیم اپنے ہی وطن میں حاصل کی اور مطالعے کے ذریعے اپنی قابلیت میں اضافہ کیا۔محمد بن موسیٰ شاکر جب کسی جنگ سے واپس آ رہا تھا تو مقام حران میں فوج نے پڑائو کیا۔ یہاں اس کی ملاقات نوجوان ثابت بن قرہ سے ہوئی۔ محمد سمجھ گیا کہ یہ نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ محمد نے ثابت کو اپنے ساتھ بغداد چلنے پر آمادہ کیا اور ساتھ لایا۔ بغداد میں محمد نے ثابت کی بڑی قدرومنزلت کی، ثابت میں علمی تحقیق کی بڑی لگن تھی۔ چنانچہ محمد بن موسیٰ اور ثابت دونوں نے مل کر ایک علمی ادارہ قائم کیا۔ اس علمی ادارہ میں بہت سے قابل لوگ شریک ہوئے اور کام شروع ہو گیا۔ یہ علمی ادارہ بیت الحکمۃ کے طرز پر تھا۔ اس نئے ادارے نے بہت سے علمی کام کئے۔ یہ 855ء کے بعد کے واقعات ہیں۔ ثابت نے علمی کاموں کی وجہ سے خاصی عزت پیدا کرلی۔علمی خدمات اور کارنامے ثابت علم ہیئت کا ماہر تھا۔ حکومت نے اسے علم ہیئت کے شعبے میں نگران مقرر کیا۔ اس نے کئی نئے نئے انکشافات کئے۔ رصد گاہ (Observatory) کے انتظامات کی اس نے اصلاح کی۔ علم تشریح الابدان میں وہ کمال رکھتا تھا اور اس نے فن یعنی علم تشریح الابدان میں نئی نئی تحقیقات کر کے اس حصے میں اہم اضافے کئے۔ اس نے اس موضوع پر ایک اچھی کتاب بھی تصنیف کی۔علم ہندسہ (جیومیٹری) میں بھی اس نے بعض شکلوں سے متعلق ایسے مسائل اور کلیات دریافت کئے جو اس سے پہلے معلوم نہ تھے۔ علم الاعداد میں ثابت نے موافق عددوں (Amicable Number) کے ایک ایسے اہم کلیے کا استخراج کیا جس کے ذریعہ کوئی مرکب عدد ان چھوٹے عددوں پر باری باری سے پورا پورا تقسیم ہو جاتا ہے اوروہ چھوٹے عدد اس مرکب عدد کے ''اجزائے مرکبہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ مثلاً 20 ایک مرکب عدد ہے جسے باری باری سے 1,2,4,5 اور 10 پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ سب عدد (20) کے اجزائے مرکب ہیں۔ یاد رکھئے! اجزائے مرکب اور اجزائے ضربی میں فرق ہے۔ اجزائے ضربی مفرد ہوتے ہیں۔ مثلاً 1,2 اور 5 مفرد ہیں مگر 4 اور 10 مرکب عدد ہیں۔ثابت نے موافق عدد کے بارے میں بتایا کہ دو مرکب عدد ایسے ہوں کہ پہلے عدد اجزائے مرکبہ کا مجموعہ دوسرے عدد کے برابر ہو جائے اوردوسرے عدد کے اجزائے مرکبہ کا مجموعہ پہلے عدد کے برابر ہو جائے تو یہ دونوں عدد آپس میں موافق عدد کہلاتے ہیں۔ ثابت نے موافق عددوں کے جوڑے کیلئے ایک کلیہ اور اصول معلوم کیا۔
ہماری دنیا اور آج کے اس جدید میں زیادہ تر لوگوں کیلئے کافی ایک پسندیدہ ترین چیز ہے۔ آپ کے جاننے والے تقریباً سبھی لوگ تھوڑی مقدار میں یا زیادہ مقدار میں کافی پیتے ہوں گے، لیکن ہم سب کو اس فرحت انگیز مشروب کے بارے میں کتنا پتہ ہے؟ اس تحریر میں ایسی دلچسپ باتیں شامل ہیں جو آپ کو شاید پہلے معلوم نہیں ہوں گی۔کافی کی دانے دار پھلیاں اصل میں کافی کے بیج: کافی کی پھلیاں درحقیقت پھلیاں نہیں ہیں بلکہ یہ کافی کے بیج ہی ہیں جن سے کافی کے نئے پودے اگائے جا سکتے ہیں۔کافی کی پھلیوں کی الگ الگ شکل کی وجہ سے انہیں کافی بینز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کافی کے بیجوں کیلئے یہی نام مشہور ہے۔ کافی کی تاریخ:لاکھوں لوگوں کے اس پسندیدہ مشروب یعنی کافی کی ابتداء سے متعلق بہت ساری کہانیاں مشہور ہیں، لیکن سب سے مشہور کہانی نویں صدی میں ایتھوپیا کے ایک بکریوں کے چرواہے کے بارے میں ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نوجوان چرواہے نے کئی بار مشاہدہ کیا کہ مقامی پودوں کو لگنے والی ان پھلیوں کو کھانے کے بعد اس کی بکریاں کتنی زیادہ متحرک اور فعال ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ان چیری نما پھلیوں کو گھر لے آیا اور خود انہیں آزمایا۔ جس کے بعد کافی کو مشروب کی طرح پینے کی ابتدا ہوئی۔ ایسپریسو کافی: دنیا میں کافی کا شوقین شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جسے یہ نہ پتہ ہو کہ ایسپریسو کافی دنیا بھر میں بہترین مانی جاتی ہے، مگر یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ ایسپریسو مشینوں کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اصطلاح دراصل اطالوی ہے اور اس سے کسی چیز پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی سے مراد لی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسپریو مشین نیچے موجود کافی بینز کو پانی سے دباتی ہے اور اس سے کافی کی تھوڑی تھوڑی مقدار لیتی رہتی ہے تاکہ کافی کے باریک ذرات کے ذریعے زیادہ گاڑھا اور مزیدار مشروب تیار کیا جاسکے۔کافی طویل زندگی کی ضامن:کافی کے بارے میں آپ نے جو بھی سنا ہو، مگر حقیقت میں کافی پینے کیلئے صحت بخش مشروبات میں سے ایک ہے جس میں بڑی مقدار میں اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتے ہیں۔جب آپ اپنے روز مرہ معمولات میں صحتمند غذا کو شامل رکھتے ہیں اور ساتھ میں کافی سے بھی لطف اندوز ہوں تو اس بات کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے کہ کافی آپ کو ایک طویل عرصہ تک زندہ رہنے میں مدد دے سکتی ہے۔کافی کی اقسام:کافی کے کاشت کار دو طرح کی کافی عربیبا اور روبستا اگاتے ہیں۔ اس میں پہلی قسم جو کہ عربیہ کافی ہے دنیا بھر میں پائی جانے والی کافی کی دیگر اقسام سے بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہے اور اسے کافی کے شوقین خواتین و حضرات بہت پسند کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ حقیقت میں روبستا کافی کاشتکاروں میں کم مقبول ہے۔ سب سے زیادہ کافی پیدا کرنے والا ملک:برازیل میں دنیا کو فراہم کی جانے والی کافی کا ایک تہائی حصہ تیار ہوتا ہے اور اس طرح برازیل دنیا کو کافی فراہم کرنے والے ممالک سے دگنی مقدار میں کافی پروڈیوس کرتا ہے۔
اگر آپ سے یہ معلوم کیا جائے کہ ایک سال کے کل آٹھ ہزار سات سو ساٹھ (8760)گھنٹوں کو آپ نے کہاں کہاں صَرف کیا ہے تو امکان ہے کہ اس میں تقریباً 70 فیصد وقت کا آپ حساب بتا دیں گے جیسے دفتر، کاروبار، نیند، آمد و رفت وغیرہ۔ باقی گھنٹوں کے حساب کیلئے آپ کو ذہن پر زور دینا ہو گا۔اگر آپ سے کہا جائے کہ اس سال کے کل گھنٹوں میں سے آپ نے کتنا وقت بامقصد استعمال کیا اور کتنا بے مقصد اور فضول و لغو باتوں میں، تو اس کا جواب یقینا مشکل ہے۔ اس کی وجہ پہلی تو یہ کہ ہم نے اپنا نصب العین اور متعلقہ مقاصد متعین نہیں کیے۔ دوسرے ان مقاصد کیلئے طریقہ کار اور راہیں متعین نہیں کیں۔ تیسرے یہ کہ ان کیلئے ہم نے عزم نہیں کیا۔ چوتھے یہ کہ باریک بینی سے منصوبہ بندی نہیں کی اور پانچویں یہ کہ اس سلسلے میں نہ تو ہم نے وقت مقرر کیا ہے، نہ اس وقت کا حساب لکھا اور نہ ہی اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ مقاصد کے حصول کیلئے ہم نے کتنا وقت استعمال کیا اور باقی کتنا ضائع ہوا۔ ہم اپنی زندگی بس اسی انداز سے 24 گھنٹہ یومیہ گزار رہے ہیں۔ ہم بے منزل کے مسافر ہیں کہ چلے جا رہے ہیں، جہاں کہیں تماشا نظر آیا تالیاں بجا دیتے ہیں۔ ہم گزرے ہوئے وقت کا احساس نہیں رکھتے نہ آئندہ کیلئے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور نہ ہی آج کیلئے عزم و ہمت اور لائحہ عمل یا ایکشن پلان پیش نظر رکھتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہم انفرادی طور پر کوئی کام نہیں کر سکیں گے اور نہ اپنی ذات اور خاندان کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے اور نہ ہی اجتماعی طور پر قوم و ملک کیلئے کوئی کارنامہ انجام دے سکیں گے۔ نتیجتاً ملکی معیشت اور قومی پیداوار میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکیں گے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے کہ وقت کہاں کہاں ضائع ہو رہا ہے تو اس سلسلے میں سب سے پہلے اپنی ذات کا جائزہ لینا ہو گا۔ دوسرے اپنی معیشت کے ذرائع کا جائزہ کہ حصول رزق کے سلسلے میں جو وقت ہم دے رہے ہیں اس میں کتنا وقت مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کا باعث ہے اور کتنا وقت محض شخصیات، سیاسیات اور معاملات کی خرابیوں کے باعث ضائع ہوتا ہے۔ تیسرے، ہم جائزہ لیں کہ معاشرتی اور اجتماعی معاملات میں ہم حقیقتاً کتنا وقت دے رہے ہیں جن کا معاشرہ تقاضا کر رہا ہے یا اس معاملہ میں عدم توجہی کا شکار ہیں۔ چوتھے اس بات کا جائزہ لیں کہ واقعی ہم اپنے گھر میں وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو ہماری حیثیت یا ذمہ داریوں کے مطابق ہے یا پھر محض پیسے کمانے کی مشین ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے گھر کو سرائے بنارکھا ہے اور صرف آرام کیلئے گھر پہنچتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم اپنی خامیوں، عادتوں اور معاملات کا پتا لگائیں جو کہ عموماً تضیع اوقات کا باعث ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے نصب العین کا تعین کر لیا ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں، پھر اس کے قلیل المیعاد اورطویل المیعاد مقاصد متعین کر لیے ہیں؟ جیسے یہ کہ اس نصب العین کے حصول کیلئے آئندہ دو سال میں یہ اور اس کے بعد کے سالوں میں یہ کام کرنے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی زندگی کیلئے ترجیحات کا تعین کر لیا ہے؟ نصب العین اور مقاصد کے تعین کے بعد اہم کام یہ ہے کہ ان کے حصول کیلئے جن ذرائع اور وسائل، معلومات اور لوازمات کی ضرورت ہے۔ اس پر توجہ دیں اور بہتر منصوبہ بندی کریں۔ اس کیلئے یہ بھی جائزہ لینا ہو گا کہ وہ کیا مصروفیات ہیں جو مقصد سے قریب پہنچانے میں دیگر مصروفیات سے زیادہ فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اسے ہم ترجیحات کا تعین کہیں گے۔ ہم اپنی عادتوں کا جائزہ لیں، جن کے باعث وقت ضائع ہوتا ہے، جیسے صبح آنکھ کھولنے کے بعد خاصی دیر انگڑائیاں لیتے رہنا۔ فجر کی نماز کے بعد گھنٹہ دو گھنٹہ کیلئے نیند کا آ جانا۔ دوستوں کے ساتھ گھنٹوں خوش گپیوں میں مشغول رہنا وغیرہ۔ شخصیت کا غیر منظم ہونا بھی معاملات میں الجھاؤ اور فیصلوں میں تاخیر کا باعث ہوتا ہے۔ نتیجتاً اس غیر منظم شخصیت کے باعث ذاتی، اجتماعی اور قومی وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی2025ءکا ایونٹ جو 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان میں شیڈول ہے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میزبانی کے اپنے اصولی موقف پر سختی سے ڈٹا ہوا ہے، جس کے بعد بھارت نے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ اسی لئے گزشتہ روز ہونے والا آئی سی سی کا اجلاس بھی نہ ہو سکا اور ذرائع کے مطابق اب یہ اجلاس اگلے 48 گھنٹوں میں ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان میں باسکٹ بال کا کھیل روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل نہ صرف قومی اور صوبائی سطح پر باسکٹ بال کے متواتر ٹورنامنٹس اور دیگر مقابلے ہو رہے ہیں بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی اس کھیل کے ایونٹس کا انعقاد ہو رہا ہے۔
کامران اور عمر کی دوستی پوری کالونی میں مشہور تھی۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ سب کامران کو پیار سے کامی کہتے تھے۔ ایک دفعہ عمر، ٹیچر سے پانی پینے کا پوچھ کر گیا لیکن پھر اس کی واپسی نہیں ہوئی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، کامی پریشان ہو رہا تھا۔ چھٹی کے وقت کامی، عمر کے گھر گیا اور کہا ’’ آنٹی! عمر، ٹیچر سے پانی کا پوچھ کر گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا، کیا وہ گھر آ گیا ہے؟‘‘۔ اس بات سے عمر کے گھر والے پریشان ہو گئے۔