اسلام آباد: (دنیا نیوز) عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دینے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
اسلام آباد: (دنیا نیوز) عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دینے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
اسلام آباد(کامرس رپورٹر،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت اور شوگرملز مالکان کے درمیان معاملات طے پا گئے، عوام کو ریلیف دینے کیلئے چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو گرام مقرر کردی گئی۔ وزارت غذائی تحفظ نے اس حوالے سے جاری بیان میں کہا شوگر ملوں کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں اب چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو گرام مقرر کردی گئی ہے، تمام صوبائی حکومتیں اس فیصلے کی روشنی میں عوام کو سستی چینی کی دستیابی یقینی بنائیں گی۔
پشاور،لاہور(سٹاف رپورٹر)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی کارکردگی کا جادو اب خیبر پختونخوا میں بھی سر چڑھ کر بولنے لگا۔ گیلپ پاکستان کے ایک حالیہ عوامی سروے میں خیبر پختونخوا کے عوام کی اکثریت نے نہ صرف اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر شدید مایوسی کا اظہار کیا بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب کو بہتر اور زیادہ مقبول رہنما قرار دیا۔
اسلام آباد(وقائع نگار، مانیٹرنگ ڈیسک)ایران کے دارالحکومت تہران میں پاکستان، ایران اور عراق کے وزرائے داخلہ کی سہ ملکی کانفرنس میں ایران اور عراق جانے والے زائرین کی سہولت کیلئے ہر ممکن اقدام پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں زائرین کی سہولت کیلئے پاکستان۔
لاہور(اپنے نامہ نگار سے)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پاکستان کی پہلی پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی(پیرا)لانچ کر دی۔ پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی اگلے ہفتے سے لاہور ڈویژن میں پوری طرح سرگرم عمل ہوگی۔ پنجاب بھر میں پیرا دسمبر تک لانچ کر دی جائے گی۔
کوئٹہ(مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں اعلیٰ سطح اجلاس ہوا جس میں بارز اور لا کمیشن کے روابط پر غور کیا گیا۔چیف جسٹس نے مفت قانونی نمائندگی پروگرام کے آغاز کا اعلان کیا اور کہا کہ غریب سائلین کو عدالتوں میں ریاستی خرچ پر وکیل فراہم ہوگا۔
اسلام آباد(مدثرعلی رانا)پی آئی اے کی نجکاری کیلئے ابتدائی طور پر 80 ارب روپے سے زائد کی ریزرو پرائس رکھنے کا تخمینہ ہے جبکہ ریزرو پرائس کی حتمی منظوری کمیٹی سے لی جائے گی،باوثوق ذرائع کی جانب سے بتایا گیا کہ پی آئی اے کی نجکاری کیلئے کم سے کم قیمت 80 ارب روپے سے زائد رکھی گئی ہے۔
لاہور، کراچی (کامرس رپورٹر، سٹاف رپورٹر) لاہور چیمبر آف کامرس کے زیر اہتمام تاجر کنونشن میں ہزاروں تاجروں نے شرکت کی اور 19 جولائی کی ملک گیر ہڑتال کے فیصلے کی حمایت کی۔
چارسدہ(نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)جمعیت علمائے اسلام(جے یو آئی ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ریاستی ادارے اپنی ناکامی کی ذمہ داری عوام پر نہ ڈالیں، ریاستی ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں،تحریک انصاف کے ساتھ اختلافات ختم نہیں کر رہے ہیں تاہم ہم چاہتے ہیں کہ ان تعلقات میں میانہ روی رکھی جائے اور اختلاف کو اختلاف کی حد تک محدود رکھا جائے۔
آپ 3500 سال پہلے کا تصور ذہن میں لائیں ، یہ میسوپوٹیمیا ہے، موجودہ عراق۔رات کے سناٹے میں دریائے فرات کے کنارے ایک بلند و بالا عمارت کی چھت پر کھڑا ایک نوجوان عالم آسمان کی وسعتوں میں گم ہے۔ اس کے سامنے مٹی کی ایک تختی ہے جس پر وہ کسی پیچیدہ گراف کی لکیریں کھینچ رہا ہے۔ وہ مشتری کی حرکت کو دیکھ رہا ہے، چاند کے زاویوں کو نوٹ کر رہا ہے اور زہرہ کے چمکنے بجھنے کے پیچھے راز تلاش کر رہا ہے۔آسمان پر جھلملاتے ستارے قدیم بابلی (Babylonian) فلکیات دانوں کے لیے رازوں بھری کتاب تھے جسے وہ پڑھنا جانتے تھے مگر شاید انہیں اس بات کا علم نہیں ہو گا کہ وہ جو ریکارڈ کر ر ہے تھے وہ ہزاروں سال بعد بھی انسانوں کو حیران کر ے گا اور سائنسدان اس تکنیک کو Calculus کا بنیادی پتھر قرار دیں گے۔ جی ہاں! بابلی فلکیات دان دوربینوں، سیٹلائٹس اور کمپیوٹرز کے بغیر بھی ستاروں کے اسرار جاننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اور یہی ان کے علم کی حیرت انگیز کہانی ہے۔ ستاروں کی زبان سمجھنے والےبابلی تہذیب کے فلکیات دانوں کے لیے آسمان فقط قدرتی مظہر نہیں تھا بلکہ ایک زندہ کتاب تھی۔ وہ چاند کی گردش، سورج کی چمک اور زُہرہ کے چکر کو دیوی دیوتاؤں کے اشارے مانتے تھے، لیکن ان کے مشاہدے اور حساب کا سائنسی پہلو اتنا جاندار تھا کہ جدید سائنس بھی آج ان کا اعتراف کرتی ہے۔انہوں نے Enuma Anu Enlil جیسے فلکیاتی جدول تخلیق کئے جن میں گرہنوں کی پیشگوئی سے لے کر زُہرہ کی روشنی کے دورانیے تک کی تفصیلات موجود تھیں۔قدیم کیلکولس، ایک حیرت انگیز کہانیآپ کو حیرت ہو گی کہ بابلی ماہرین نے مشتری (Jupiter) کی حرکت کو جانچنے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا وہ آج کے Integral calculus کا پیش خیمہ ہے۔انہوں نے ایک trapezoid (چوکور نما شکل) کی مدد سے مشتری کے مدار کا رقبہ نکالا اور اس سے یہ معلوم کیا کہ وہ کتنی دور جا چکا ہے۔ یہ کام آج سے تقریباً 1400 سال قبل ہوا جب دنیا میں کیلکولس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔بابلیوں کی ایک اور حیرت انگیز دریافتPlimpton 322ہے، جو مٹی کی بنی ہوئی ایک تختی ہے مگر اپنے اندر پورا ریاضیاتی جہان سموئے ہوئے ہے۔ اس پر ایسے جدول نقش ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ بابلی مثلث کے زاویوں اور اضلاع کے تناسب کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔کچھ ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا سب سے پہلا ٹرگنومیٹری ٹیبل ہے جو بعد میں فلکی نقشوں ،نہری نظام اور تعمیرات میں مددگار ثابت ہوا۔ وقت اور زاویوں کا انوکھا نظامبابلیوں نے زاویے کو 360 درجے میں تقسیم کیا۔ ہر ڈگری 60 منٹ پر مشتمل تھی اور ہر منٹ 60 سیکنڈ پر۔ یہ وہ نظام ہے جو آج بھی دنیا بھر میں وقت اور زاویوں کی پیمائش کے لیے استعمال ہوتا ہے۔بابلی فلکیات دانوں نے Saros cycle دریافت کیا جو یہ بتاتا ہے کہ ہر 18 سال 11 دن بعد سورج یا چاند گرہن دوبارہ اسی انداز میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔بابلیوں نے ستاروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور ان کی بنیاد پر 12 برج بنائے۔ یہ وہی برج ہیں جو آج بھی علم نجوم (Horoscopes) اور فلکیات میں استعمال ہوتے ہیں۔ بابلیوں کے لکھے ہوئے ستاروں کے نقشے بعد میں یونان، مصر اور اسلامی دنیا تک پہنچے اور صدیوں تک سائنس کی بنیاد بنے رہے۔بابلی نوشتیں صرف فلکی حرکات تک محدود نہیں تھیں ان میں موسمی پیشگوئیاں، اجناس کے نرخ حتیٰ کہ بادشاہوں کے لیے پیش گوئیاں بھی درج تھیں۔آج کی دنیا میں بابلی ورثہاگر آپ آج اپنے سمارٹ فون پر چاند گرہن کا وقت دیکھتے ہیں یا GPS سے سمت معلوم کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس علم کی بنیاد اُن بابلی ماہرین نے رکھی تھی۔ اُن کے بغیر شاید نہ یونانی دانشمند بطلیموس (Ptolemy) اپنا ماڈل بنا پاتا اور نہ اسلامی ماہرینِ فلکیات اپنے دقیق جدول تیار کرسکتے۔ماضی کا علم، مستقبل کی روشنیقدیم بابلیوں نے ستاروں سے روشنی لی اور اسے علم کا چراغ بنا کر آنے والے زمانوں تک پہنچایا۔بابلی فلکیات دان صرف آسمان کے ناظر نہیں تھے وہ اس کے رازوں کے محافظ بھی تھے۔ آج خلا میں گردش کرتے سیٹلائٹس اور دوربینیں ان کے خوابوں کی جدید شکل ہیں۔وہ مٹی کی تختیوں پر جو علم لکھتے تھے وہ دراصل خلا کے ان دروازوں کی چابیاں تھیں جو انسان نے ہزاروں سال بعد کھولے۔ بابلی علم کے 5 انمول موتی٭ زاویوں کو 360 درجوں میں تقسیم کیا٭ چاند گرہن کےSaros cycle کی پیشگوئی٭ دنیا کا پہلا ٹرگنو میٹری ٹیبل بنایا٭ برجوں کی بنیاد ٭ گرافیکل حرکت کا تصور (Calculus کی ابتدائی شکل)
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور غیر متوقع موسمی تغیرات نے دنیا بھر میں انسانی زندگی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ ایسے میں ٹیکنالوجی ایک طاقتور ہتھیار بن کر سامنے آئی ہے۔سب سے پہلے، جدید سیٹلائٹ سسٹمز اور ڈرون ٹیکنالوجی کی بدولت موسم کی پیش گوئی زیادہ درست ہو گئی ہے۔ سمارٹ سینسرز زمین، پانی اور ہوا کے معیار پر مسلسل نظر رکھتے ہیں، جس سے بروقت وارننگ جاری کی جا سکتی ہے۔ سیلاب، طوفان اور خشک سالی جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے ان پیش گوئیوں کی بنیاد پر انتظامات کیے جاتے ہیں۔دوسرا، آفات کے دوران کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا کردار نمایاں ہے۔ موبائل ایپس، سوشل میڈیا اور ایمرجنسی الرٹ سسٹمز عوام کو فوری طور پر خطرات سے آگاہ کرتے ہیں، جس سے جانی نقصان کم ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اور مشین لرننگ کی مدد سے متاثرہ علاقوں کا تجزیہ کر کے وسائل کی مؤثر تقسیم کی جا سکتی ہے۔تیسرا، قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے سولر اور ونڈ پاور کے استعمال سے کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے، جو موسمی تبدیلیوں کا ایک بڑا سبب ہے۔ سمارٹ ایگری کلچر ٹیکنالوجیز کسانوں کو بدلتے موسم کے مطابق فصلوں کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد دیتی ہیں۔یوں ٹیکنالوجی نہ صرف موسمی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے بلکہ آفات کے دوران انسانی جان و مال کے تحفظ میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ مستقبل میں اس شعبے میں مزید جدت انسانیت کو بڑے خطرات سے بچانے میں معاون ثابت ہوگی۔ہر سال ملک کے مختلف علاقوں سے بارشوں، سیلابوں اور پہاڑی نالوں میں طغیانی کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، سینکڑوں مکان زمین بوس ہو جاتے ہیں اور اہم شاہراہیں یا تو بند ہو جاتی ہیں یا ملبے کے نیچے دب جاتی ہیں۔ بظاہر یہ آفت موسمی یا قدرتی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے پیچھے سائنسی، ماحولیاتی، انتظامی اور سماجی عوامل کی ایک پوری زنجیر ہے۔موجودہ سرکاری بندوبست کا جائزہ لیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے سیاحتی اور پہاڑی علاقوں کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے تو کئی نکات سامنے آتے ہیں۔دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے دریاؤں میں پانی کا بہاو ٔغیر معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، بارشوں کا پیٹرن بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ کبھی معمول سے کئی گنا زیادہ بارش ہو رہی ہے تو کبھی طویل خشک سالی کا سامنا ۔مون سون سسٹم اب زیادہ نمی لے کر آتا ہے اور ایک ہی علاقے میں چند گھنٹوں کے دوران شدید بارش برسا دیتا ہے۔ اس کلاؤڈ برسٹ کی کیفیت سے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ، ندی نالوں میں طغیانی اور اچانک سیلاب کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔جنگلات کی کٹائی، پہاڑی ڈھلوانوں پر غیر محفوظ تعمیرات، دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے والے اسباب اور زمین کی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری قدرتی نظام کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس سے بارشوں کا پانی قدرتی راستوں کی بجائے بستیوں، سڑکوں اور کھیتوں میں بہنے لگتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی مون سون سے پہلے وارننگ جاری کرتی ہے، کچھ علاقوں میں محکمہ موسمیات کے تعاون سے ارلی وارننگ سسٹم بھی قائم کیا گیا ہے جو بارشوں اور سیلاب کی پیشگی اطلاع دیتا ہے تاہم یہ نظام ابھی پوری طرح مؤثر نہیں اور دیہی علاقوں تک اس کی رسائی محدود ہے۔تاہم جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بچاؤ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ڈرونز اور سیٹلائٹ کی مدد سے بارشوں کے بعد زمینی حالات، دریاؤں کی سطح اور نالوں کے بہاؤ کا رئیل ٹائم میں جائزہ لیا جا سکتا ہے اور علاقے میں موبائل پر SMS یا ایپ کے ذریعے وارننگ دی جا سکتی ہے۔ جیو فینسنگ سے متاثرہ علاقوں کی حدود مقرر کر کے الرٹس جاری کرنا آج کے دور میں مزید آسان ہو گیا ہے۔پہاڑی ندی نالوں میں سمارٹ میٹرز نصب کیے جا سکتے ہیں جو پانی کے بہاؤ اور سطح میں اضافے کو فوری رپورٹ کرتے ہیں۔ یہ ڈیٹا ریسکیو ٹیموں، ضلعی انتظامیہ اور عوام کو فوری آگاہ کر سکتا ہے۔AI ماڈلز کی مدد سے ماضی کے موسم، زمین کی ساخت، بارش کی شدت اور انسانی سرگرمیوں کو مد نظر رکھ کر خطرات کی پیشگی پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ ان ماڈلز سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس علاقے میں کب اور کتنی شدت کا سیلاب یا لینڈ سلائیڈنگ متوقع ہے۔ قدرتی آفات کے باعث ہونے والا جانی و مالی نقصان صرف قدرتی نہیں بلکہ انسانی غفلت، ادارہ جاتی کمزوری اور سائنسی پیشرفت سے فائدہ نہ اٹھانے کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کر کے نہ صرف قیمتی جانیں بچانی ہوں گی بلکہ سیاحت جیسے شعبے کو بھی محفوظ اور ترقی یافتہ بنانا ہوگا۔ تبھی ہم ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں جو ہر سال ایک تسلسل سے ہمارے سامنے آتے ہیں اور جن سے بچنا ممکن ہے۔ ٹیکنالوجی موسمی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے اور آفات سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
دنیا کے گرد چکر لگانے والا پہلا ہوا باز15 جولائی 1933ء کو امریکی ہوا باز ولے پوسٹ(Wiley Post) نے دنیا کے گرد چکر لگانے کا آغاز کیا۔ یہ کسی بھی ہوا باز کی جانب سے دنیا کا چکر لگانے کی پہلی پرواز تھی۔ ولے پوسٹ نے سات دن 18 گھنٹے اور 49 منٹ میں دنیا کے گرد چکر مکمل کیا۔ ولے پوسٹ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کی پرواز کامیابی کے ساتھ مکمل ہوئی اور اس کی کوشش نے دنیا کے دیگر ہوا بازوں کیلئے بھی راہ ہموار کی۔دنیا کی پہلی زیر آب تصویر15 جولائی 1926ء کو دنیا پہلی زیر آب تصویر کھینچی گئی ، جس کیلئے خصوصی کیمرہ کا استعمال کیا گیا۔ اس تصویر کو زیادہ اہمیت اس لئے بھی حاصل ہوئی کہ یہ زیر آب کھینچی جانے والے دنیا کی پہلی رنگین تصویر تھی۔ اس تصویر کو کھینچنے کا اعزاز نیشنل جیوگرافک کے میگزین نے حاصل کیا اور اسی میگزین میں اس کو شائع کیا گیا۔ یہ قارئین کیلئے بہت حیران کن بات تھی کہ پانی کے نیچے بھی تصویر کھینچنا ممکن ہے۔ویانا کا محاصرہ15 جولائی 1683ء کو عثمانی فوج نے ویانا کے خلاف محاذ کا آغاز کیا۔ و یا نا کا محاصرہ تاریخ میں ' جنگِ و یا نا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس جنگ میں عثمانیوں کا سامنا پولینڈ، آسٹریا اور جرمنی کی افواج سے ہوا۔ دو ماہ کے محاصرے کے بعد فیصلہ کن جنگ کا آغاز 12 ستمبر کو ہوا۔ اس جنگ کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ کا زوال تیز ہوگیا اور وہ آہستہ آہستہ یورپ کے مقبوضات کھونے لگی۔ایران فضائی حادثہکیسپین ایئر لائنز کی پرواز 7908 تہران سے پریوان، آرمینیا کیلئے ایک طے شدہ پرواز تھی جو 15 جولائی 2009ء کو شمال مغربی ایران کے شہر قزوین کے باہر جنت آباد گاؤں کے قریب گر کر تباہ ہوگئی۔جہاز میں سوار تمام 153 مسافر اور عملے کے 15 افراد ہلاک ہو گئے۔
رین میکر کے سی ای او نے موسمی ترمیم کے کردار پر خاموشی توڑ دیامریکی ریاست ٹیکساس کے وسطی علاقوں میں حالیہ دنوں میں آنے والے ہولناک سیلاب نے جہاں سیکڑوں زندگیاں متاثر کیں، وہیں اس قدرتی آفت کے اسباب پر ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی اطلاعات اور ایک نجی کمپنی کی کلاؤڈ سیڈنگ کارروائی نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آیا انسان کا موسم میں دخل اندازی کرنا ان تباہ کن نتائج کا باعث تو نہیں بنا؟ سیلاب سے محض دو روز قبل Rainmaker نامی کمپنی نے جس علاقے میں مصنوعی بارش کرنے کی کوشش کی، وہی علاقہ بعد میں شدید طوفان اور پانی کی لپیٹ میں آ گیا اور اب عوامی غصے اور سائنسی وضاحتوں کے درمیان ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے کہ کیا کلاؤڈ سیڈنگ جیسے تجربات واقعی محفوظ ہیں یا نہیں؟4 جولائی کو وسطی ٹیکساس میں اچانک آنے والے سیلاب نے ہلاکتوں کا ایک اندوہناک سلسلہ چھیڑ دیا۔ ایک سمر کیمپ میں موجود کم از کم 27 کم عمر لڑکیاں ہلاک ہو گئیں، جب کہ مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 93 تک پہنچ گئی۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ کیر کائونٹی (Kerr County) کو قرار دیا گیا جہاں سیلاب نے گھروں، سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔اس ہولناک واقعے سے محض دو دن قبل ''رین میکر‘‘ ( Rainmaker) نامی کمپنی نے کیر کائونٹی سے تقریباً 130 میل جنوب مشرق میں 2 جولائی کو کلاؤڈ سیڈنگ کی ایک کارروائی انجام دی تھی۔ اس عمل کے تحت بادلوں میں ''سلور آئیوڈائیڈ‘‘نامی کیمیکل شامل کیا گیا تاکہ بارش کو متحرک کیا جا سکے۔یہ انکشاف سوشل میڈیا پر عوامی غصے اور قیاس آرائیوں کا باعث بن گیا۔ بعض صارفین نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ''رین میکر‘‘ نے جہاں بادلوں پر تجربہ کیا، وہی علاقہ دو دن بعد تاریخ کے بدترین سیلاب کی لپیٹ میں آ گیا۔ کمپنی کے سی ای او آگسٹس ڈوریکو (Augustus Doricko) پر عوامی غم و غصہ اور قیاس آرائیوں کا دباؤ بڑھا تو انہوں نے امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ ''Rainmaker‘‘ کا اس سیلاب سے کوئی تعلق نہیں،ہمارے ماہر موسمیات نے قومی موسمیاتی سروس کی طرف سے فلیش فلڈ وارننگ جاری ہونے سے ایک دن پہلے ہی اپنی سرگرمیاں احتیاطاً معطل کر دی تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حتیٰ کہ کلاؤڈ سیڈنگ منصوبے عام طور پر صرف کروڑوں گیلن بارش پیدا کرتے ہیں، جو سیکڑوں مربع میل کے رقبے پر پھیلی ہوتی ہے۔ یہ مقدار ان کھربوں گیلن کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے جو طوفانی بارشوں کے نتیجے میں پیدا ہوئیں اور سیلاب کا باعث بنیں۔ٹیکساس کے محکمہ برائے لائسنسنگ و ریگولیشن (TDLR) جو ریاست میں کلاؤڈ سیڈنگ کی نگرانی کرتا ہے کے ترجمان نے ڈیلی میل کو تصدیق کی کہ جن بادلوں کو نشانہ بنایا گیا تھا وہ چھوٹے اور تنہا تھے اور 2 جولائی کو شام 4 بجے تک مکمل طور پر تحلیل ہو چکے تھے۔ محکمہ کے ترجمان کے مطابق سائنسی مطالعات سے ظاہر ہوا ہے کہ بہترین صورت حال میں بھی کلاؤڈ سیڈنگ سے بارش میں اوسطاً صرف 10 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔مثالی حالات میں کلاؤڈ سیڈنگ موجود نمی والے بادلوں میں معمولی سے درمیانے درجے تک اضافہ کر سکتی ہے، لیکن یہ شدید طوفان یا سیلاب پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔کمپنی کے سی ای او آگسٹس ڈوریکو نے بھی یہی موقف اختیار کیا اور فاکس نیوز کے میزبان ول کین کو بتایا کہ 2 جولائی کو کمپنی کی کارروائی سے ایک سینٹی میٹر سے بھی کم بارش ہوئی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا رین میکر کی جانب سے بادلوں میں شامل کیا گیا ''سلور آئیوڈائیڈ‘‘طوفان کو طاقتور بنانے کا سبب بن سکتا تھا؟ تو ڈوریکو نے دوٹوک انداز میں کہا:بالکل نہیں، اگر وہ فضا میں باقی بھی رہتا تو بھی نہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ کلاؤڈ سیڈنگ میں استعمال ہونے والے ایروسول (ہوائی ذرات) بارش شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر تحلیل ہو جاتے ہیں۔اگر انہیں کھلی فضا میں چھوڑا جاتا تو وہ کچھ دیر تک باقی رہ سکتے تھے۔لیکن اوّل تو ہم نے انہیں بادلوں میں ڈالا نہ کہ کھلی فضا میں اور دوم جو بھی مقدار باقی رہتی، وہ اگلے چند گھنٹوں یا دنوں میں اتنی منتشر ہو چکی ہوتی کہ اس کا کوئی اثر باقی نہ رہتا۔ ڈوریکو نے مزید کہاکہ اس کی مقدار بہت ہی کم ہوتی، محض پس منظر کی گرد جیسی۔انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں اس معاملے پر ملنے والی بے پناہ توجہ پر وہ حیران نہیں ہیں، کیونکہ مجھے سوالات، الزامات، حتیٰ کہ دھمکیاں تک موصول ہو رہی ہیں۔اگرچہ سوشل میڈیا اور عوامی حلقے کلاؤڈ سیڈنگ پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، لیکن سائنسی شواہد اور ماہرین کی آراء کے مطابق اس طوفان اور سیلاب کا تعلق قدرتی عوامل سے تھا نہ کہ انسان کے تیار کردہ موسمی تجربات سے۔ تاہم یہ واقعہ ایک بار پھر اس بحث کو زندہ کر گیا ہے کہ موسمی ترمیم جیسے سائنسی عمل کس حد تک محفوظ ہیں اور ان پر کتنی سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔ٹیکساس فلیش فلڈنگ کا شکار کیوں ہوا؟ماحولیاتی سائنسدان کین لیپرٹ(Ken Leppert) نے وضاحت کی کلائوڈ سیڈنگ ایسے بادل یا طوفان پیدا نہیں کر سکتی جو پہلے سے موجود ہی نہ ہوں۔جن طوفانوں نے ٹیکساس میں بارش اور سیلاب پیدا کئے، وہ واقعے سے دو دن پہلے موجود ہی نہیں تھے۔ٹیکساس کا ہِل کنٹری علاقہ، جو ریاست کے وسطی حصے میں واقع ہے، وہ فطری طور پر سیلاب (فلیش فلڈنگ) کا شکار رہتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی خشک اور سخت مٹی بارش کو جذب کرنے کے بجائے سطح پر پھسلا دیتی ہے، جس سے پانی تیزی سے بہنے لگتا ہے۔3 جولائی کو دوپہر کے وقت جب سیلاب کا ابتدائی الرٹ جاری کیا گیا، تو اسی رات نیشنل ویدر سروس نے کم از کم 30 ہزار افراد کیلئے ایک ہنگامی وارننگ جاری کی۔4 جولائی کو آنے والے فلیش فلڈز کا آغاز ایک انتہائی شدید طوفان سے ہوا، جس نے زیادہ تر 12 انچ بارش رات کے اندھیرے میں برسا دی۔ مقامی رپورٹس کے مطابق اس قدر زیادہ بارش ہوئی کہ گواڈیلوپ دریا (Guadalupe River ) کی سطح 93 سال میں پہلی بار تقریباً ایک فٹ سے زیادہ بلند ہو گئی۔
ان کا شمار اپنے عہد کے مشاہیر شعرا میں ہوتا ہے ، یہ عمر اور عشق ہے آزردہ جائے شرم حضرت یہ باتیں پھبتی ہیں عہدِ شباب میں
شعر میں قافیے کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے جس سے اسے نہ صرف ڈسپلن حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ شعر کو ایک خاص موسیقی سے بھی بہرہ ورکرتا ہے اس لیے شعرا نہ صرف اسے ایک خاص اہمیت دیتے ہیں بلکہ اس کے تمام تلازمات کا بھی خیال رکھتے ہیں غالب نے چونکہ مستقبل میں ایک سند کا درجہ حاصل کرنا تھا اس لیے ان کے لیے ضروری تھا کہ اس کی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھتے۔
گرین شرٹس ،بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں پر مشتمل سیریز کھیلنے کیلئے 16جولائی کو ڈھاکہ جائے گی۔ یہ ٹی 20 سیریزایشیا کپ 2025ء اورٹی 20 ورلڈ کپ 2026ء سے قبل دونوں ٹیموں کی تیاری کے طور پرانتہائی اہمیت رکھتی ہے۔
طویل عرصہ بعدپاکستان کے قومی کھیل ہاکی کے بین الاقوامی میدانوں سے گرین شرٹس کی اچھی خبریں آنا شروع ہوئی ہیں۔ ایف آئی ایچ نیشنز کپ کے بعد پاکستان انڈر18 ہاکی ایشیا کپ کے فائنل میں بھی پہنچ گیا۔