راہِ ہدایت
اسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھااوراس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے )تاکہ پیغمبرتمہارے بارے میں گواہ ہوں اورتم لوگوں کے گواہ بن جاؤ۔ (سوٍرۃ الحج :آیت78)

دفعہ 144 کی خلاف ورزی، مہر بانو قریشی کارکنان سمیت گرفتار


ملتان: (دنیا نیوز) ملتان میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی رہنما مہربانو قریشی کو کارکنان سمیت گرفتار کرلیا گیا۔



اشتہار

اسلام آباد (کورٹ رپورٹر ، اپنے نامہ نگار سے ،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے 4 ججز جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن کا 10 فروری کو ہونے والا اجلاس موخر کرنے کا مطالبہ کر دیا اور کہا کہ۔۔۔

لاہور (دنیا نیوز،اے پی پی )مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف اور وزیراعلیٰ مریم نواز سے پنجاب اسمبلی کے ارکان نے ملاقات کی۔ فیصل آباد، چنیوٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان ملاقات کرنے والوں میں شامل تھے ۔

اسلام آباد، راولپنڈی(خصوصی نیوز رپورٹر) بنگلہ دیش کی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ایم نظم الحسن نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا،چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر اور وزیردفاع خواجہ آصف سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں ۔

لاہور (سیاسی نمائندہ،دنیا نیوز) کامن ویلتھ پارلیمنٹری ایسوسی ایشن کی ساؤتھ ایسٹ ایشیا ریجنز کی دو روزہ پہلی مشترکہ پارلیمانی کانفرنس کی افتتاحی تقریب کا انعقاد پنجاب اسمبلی میں ہوا۔

اسلام آباد ( کورٹ رپورٹر )سپریم کورٹ نے چیف جسٹس یحیی آفریدی کی سربراہی میں 100روزہ کارکردگی رپورٹ جاری کردی ،اس عرصہ میں سپریم کورٹ نے 8ہزار سے زائد مقدمات نمٹائے جبکہ ہائیکورٹس میں 36جج تعینات کئے گئے ۔

لاہور (کورٹ رپورٹر)لاہور ہائیکورٹ نے گھروں میں گاڑیاں دھونے والوں کو دس ہزار روپے جرمانہ اور واٹر ری سائیکل پلانٹ نہ لگانے والے پٹرول پمپس کو ایک لاکھ جرمانہ کرنے کی ہدایت کردی ۔۔۔

اسلام آباد (مدثرعلی رانا) زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے جمع ہو نگے ، پلان آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کر دیاگیا ، ذرائع کے مطابق زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کا گوشوارہ 30 ستمبر 2025 میں شامل کر لیا جائے گا۔۔۔

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)صدر آصف علی زرداری صدر شی جن پنگ کی جانب سے دیے جانے والے ظہرانے میں شرکت کیلئے ہاربن سن آئلینڈ گیسٹ ہاؤس گئے۔۔۔

متفرقات

یادرفتگاں: بیگم خورشید مرزا ریڈیو،ٹی وی اور فلم کی ممتاز اداکارہ

یادرفتگاں: بیگم خورشید مرزا ریڈیو،ٹی وی اور فلم کی ممتاز اداکارہ

بیگم خورشید مرزا جن کا اصل نام خورشید جہاں تھا تقسیم ہند سے قبل رینوکا دیوی کے نام سے مشہور ہوئیں اور پاکستان بننے کے بعد سرکاری ٹی وی کی ممتاز فنکارہ کے طور پر جانی گئیں۔ 8 فروری 1989 کو لاہور میں وفات پانے والی بیگم خورشید مرزا کو ناظرین ''اکا بوا‘‘ کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے۔ اُس دور میں شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے اُن کے یادگار ڈرامے ''کرن کہانی‘‘، ''زِیر زبر پیش‘‘، ''انکل عرفی‘‘، ''پرچھائیں‘‘، ''رومی‘‘، ''افشاں‘‘ اور' 'انا‘‘ نہ دیکھے ہوں۔ لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ بیگم خورشید مرزا کا تعلق برصغیر کے کتنے معروف علمی، ادبی اور ثقافتی خانوادے سے تھا۔بیگم خورشید مرزا 4مارچ 1918ء کو برٹش انڈیا دور میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں اور ان کا نام خورشید جہاں تھا۔ ان کے والد شیخ عبداللہ بیرسٹر تھے، جنہوں نے علی گڑھ گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کی والدہ وحیدہ جہاں تھیں۔ بیگم خورشید جہاں کا گھرانہ علی گڑھ کے پڑھے لکھے گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کی بڑی بہن ڈاکٹر رشیدہ تھیں جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی اراکین میں سے تھیں اور ان کی دوسری بہنیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔خورشید جہاں نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی۔ سکول کالج سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے انڈیا کے مختلف تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم کی سندیں حاصل کیں۔ 1934ء میں ان کی شادی دہلی کے ایک پولیس آفیسر اکبر حسین مرزا سے ہوئی اور وہ بیگم خورشید مرزا کہلائیں۔ ان دنوں فلموں کی اداکارائوں کو زیادہ اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ رینو کا دیوی( بیگم خورشید مرزا) کی پہلی فلم ''جیون پرابھت‘‘ کے نام سے 1937ء میں ریلیز ہوئی۔ ان کی دوسری فلم ''بھابی‘‘ تھی جو 1938ء میں ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ہوئی۔ یوں بیگم خورشید پورے انڈیا میں رینوکا دیوی کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ اس فلم میں وہ ہیروئن تھیں۔ فلم ''نیا سنسار‘‘ بھی ان کی ایک سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے ہیرو اشوک کمار تھے اور ہیروئن رینو کا دیوی (بیگم خورشید مرزا) تھیں۔ فلم ''سنسار‘‘ کے ہدایتکار این آر اچاریہ تھے۔ اس فلم میں بھی رینوکادیوی نے کئی گانے گائے تھے۔1941ء کی یہ سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے بعد رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) نے بمبئی کو خیر باد کہا اور لاہور آئیں۔1943ء میں لاہور سے زینت بیگم فلمز کی جانب سے ان کی ایک فلم ''سہارا‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔1947ء میں پاکستان وجود میں آیا اور رینوکادیوی اپنا نام اور فلمیں انڈیا میں چھوڑ کر پاکستان آ گئیں۔ پاکستان آنے کے بعد کافی عرصہ تک ان کا نام ہندوستان میں گونجتا رہا اور وہاں کے شائقین فلم رینو کادیوی کو یاد کرتے رہے، مگر رینوکادیوی پاکستان آ گئیں اور یہاں بیگم خورشید مرزا کے نام سے معروف ہوئیں۔ابتدا میں بیگم خورشید مرزا ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہیں اور اپنے پروگراموں میں غریب پسماندہ علاقوں کے مسائل پر روشنی ڈالتی رہیں مگر انہوں نے یہاں کی فلمی صنعت جوائن نہیں کی، کیونکہ یہاں کی فلموں کی تباہ حالی اوراداکارائوں کی عزت کا معیار ان کے حساب سے توہین آمیز تھا، اس لئے انہوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا اور ریڈیو کے ذریعے حق کی آواز بلند کرتی رہیں۔ 1964ء میں سرکاری ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں آیا اور اس میں خواتین بھی پڑھی لکھی تھیں، اس میں شمولیت اختیار کی۔ بیگم خورشید مرزا کا پی ٹی وی پر پہلا ڈرامہ سیریل ''کرن کہانی‘‘ کے نام سے تھا، جس کو حسینہ معین نے تحریر کیا تھا۔70ء کی دہائی میں بیگم خورشید مرزا سرکاری ٹی وی کی معروف فنکارہ بن گئیں۔1974ء میں ان کی ڈرامہ سیریل ''زیر، زبر، پیش‘‘ تھی۔ یہ کامیڈی ڈرامہ تھا، جس کی پروڈیوسر شیریں خان تھیں۔ کہانی حسینہ معین نے لکھی تھی۔1974ء ہی میں ان کا ایک اور ڈرامہ ''انکل عرفی‘‘ کے نام سے شروع ہوا جو کافی مقبول ہوا۔ اس کے بعد ان کے بے شمار ڈرامے پی ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ ہوئے۔1984ء میں ان کی ڈرامہ سیریل ''انا‘‘ پیش کی گئی جو بہت مقبول ہوئی۔ کراچی سینٹر کی یہ سیریل 21اقساط پر مشتمل تھی۔ ان کے دیگر معروف ڈراموں میں شمع، افشاں، عروسہ، رومی، شوشہ، پناہ، دھند اور ماسی شربتی وغیرہ شامل ہیں۔ 1982ء میں بیگم خورشید مرزا نے اپنی خود نوشت ایک مقامی میگزین میں 9اقساط میں لکھی جو ہر ماہ شائع ہوئی تھیں۔ ان سوانح حیات میں انہوں نے برطانوی دور حکومت میں اپنی تعلیم زندگی، ازدواجی زندگی اور بھارتی فلموں میں ان کی اداکاری پر تفصیلی نوٹ لکھا جو بعد میں ان کی بیٹی لبنیٰ کاظم نے ترتیب دیا جوA Woman of Substance: The Memoirs of Begum Khurshid Mirza, 1918-1989کے نام سے شائع ہوا۔ بیگم خورشید مرزا نے بہت سماجی خدمات بھی انجام دیں، ان میں ''اپوا‘‘ (Apwa) ''آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن‘‘ ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں 1985ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ بیگم خورشید مرزا کا انتقال 8 فروری 1989ء کو لاہور میں ہوا ۔اور ان کی تدفین میاں میر قبرستان لاہور میں کی گئی۔ 

پیٹرادنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک

پیٹرادنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک

1812ء میں سوئٹزر لینڈ کا ایک مہم جو جان برک ہارڈ(Johann Ludwig Burckhardt) ایک عرب سوداگر کا بھیس بدل کر اردن کے قدیم شہر میں سے گزرا۔ جب وہ قدیم آدم کی پہاڑیوں کے نزدیک پہنچا تو اس نے ان کہانیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک حقیقت کی شکل میں دیکھا جو اس نے بدوئوں سے زمین میں دفن ہو جانے والے شہر کے متعلق سنی تھیں۔برک ہارڈ اس جگہ جانے کی خواہش کا کھلم کھلا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ اس جگہ سے وابستہ قدیم داستانوں سے واقف تھا، اس لئے اس نے اس بنا پر اجازت حاصل کی کہ وہ ایرون کے مندر میں ایک قربانی دینا چاہتا ہے۔ پہاڑوں کے ایک تنگ درے سے گزر کر ''برک ہارڈ‘‘ مندروں اور گنبدوں کے اس خوبصورت شہر میں پہنچا جو چٹانوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ اس شہر کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گیا اور یوں اس نے پیٹرا کا قدیم شہر دوبارہ دریافت کیا، جس کے اصل مقام کو مغربی دنیا کے لوگ ایک ہزار سال قبل بھلا چکے تھے۔پیٹرا جنوبی اردن کے چٹانی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ شہر ایک آئوٹ ڈور میوزیم کی مانند لگتا ہے۔ قسطنطنیہ، مصری، رومی اور یونانی طرز تعمیر کا امتزاج یہ شہر دیگر قدیم شہروں سے بڑا منفرد نظر آتا ہے۔ اس کی بنیاد نباتینز نے رکھی جو کہ عرب تھے۔ دیگر قدیم شہروں کی طرح پیٹرا کی معیشت کا دارومدار بھی تجارت پر تھا۔ قدیم نباتینز نے تقریباً 300قبل مسیح میں اس شہر کو چٹانوں کو تراش کر بنایا۔ اس وقت پیٹرا پہاڑ کی نوکیلی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اصل میں یہ شہر مشرق وسطیٰ کے قدیم راستوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اونچے پہاڑوں میں سے گزر کر یہ ہی وہ راستہ تھا جہاں سے گزر کر عربوں کے تجارتی قافلے بحیرہ روم اور بحیرہ اسود پہنچا کرتے تھے اور ان عربوں (نباتینز) کی کمائی کا اصل ذریعہ تجارتی راستوں کی حفاظت سے حاصل ہونے والا ٹول ٹیکس تھا۔پیٹرا کی ایک اور اہمیت یہ تھی کہ یہاں پانی کثرت سے تھا جو ان قافلوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہوتا تھا۔ جلد ہی یہ شہر ایک عظیم تجارتی مرکز اور نباتی سلطنت کا دارالحکومت بن گیا۔ یہ سلطنت 106ء تک قائم رہی پھر رومیوں نے پیٹرا کو فتح کر لیا۔ رومی سلطنت کے ایک صوبے کی حیثیت سے پیٹرا کی اہمیت کچھ عرصہ قائم رہی۔ اس لئے اس کے طرز تعمیر پر رومیوں کا بہت گہرا اثر نظر آتا ہے۔ جب رومیوں نے دیگر تجارتی راستوں کو ترقی دی تو اس شہر کی اہمیت آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں یہ شہر بالکل ویران ہو گیا۔ آخر کار 8ویں صدی عیسوی کے وسط میں ایک خوفناک زلزلے کے نتیجے میں یہ عظیم الشان شہر مکمل طور پر زمین کے نیچے دفن ہو گیا۔اب اس شہر کے جو کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں اس کے مطابق اس میں داخلے کیلئے ایک تنگ گھاٹی سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ 5میٹر چوڑی اور 200 میٹر بلند ہے۔ بہت سے مندر اور گنبد جو پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ اب تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور''کیشنی‘‘ ہے جو پیٹرا تک جانے والے تنگ درے''سق‘‘ کے اندرونی سرے کی مخالف سمت میں بنا ہے۔پہلی صدی قبل مسیح میں بننے والی یہ عمارت کیشنی کی دو منزلیں ہیں۔ نچلی منزل کی طرز تعمیر یونانی مندروں جیسی ہے جس کے اوپر کے حصے میں مثلث نما ستون نظر آتے ہیں۔ چٹانوں کو کھود کر اس یادگار پر دلکش نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ کیشنی کی مرکزی عبادت گاہ202 مربع میٹر رقبہ پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ دو چھوٹے کمرے ہیں جو راہبوں کیلئے مخصوص تھے۔کیشنی ایک مندر ہے اور اس کا ایک گنبد بھی ہے۔ اس لفظ کا عربی مفہوم''خزانہ‘‘ ہے۔ مقامی بدوئوں کا خیال تھا کہ اوپر کے مرکزی ہال میں جو خاکدان بنا ہوا ہے اس میں ایک مصری فرعون کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ کئی بدوئوں نے خزانہ حاصل کرنے کیلئے اس خاکدان پر گولیاں چلائیں تاکہ اسے توڑا جا سکے۔ پیٹرا میں داخلے والی تنگ گھاٹی سے آگے کئی ستونوں والے مقبرے ہیں۔ آگے کی طرف جائیں تو ایک تھیڑ آتا ہے جو چٹانوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا اس کی تعمیر پہلی صدی قبل مسیح میں ہوئی۔تھیڑ سے آگے کئی مقبرے ہیں۔ یہیں ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزرتے ہوئے ایک گھنٹہ کی پیدل مسافت پر قدیم عبادت گاہ ہے جو رومیوں کے عہد میں بنائی گئی تھی۔ اس سے بھی اوپر قربان گاہ ہے جہاں کئی درزیں بنی ہیں جن کے ذریعے قربانی کے جانوروں کا خون نیچے گرایا جاتا تھا۔ پیٹرا سے جنوب کی طرف وسیع و عریض صحرائی لینڈ سکیپ ہے جسے وادی روم کہا جاتا تھا۔ یہاں بدو قبائل آباد ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

برقی کرسی پر پابندی08فروری 2008ء کو نبراسکا میں سزائے موت دینے کیلئے برقی کرسی کے طریقے پر پابندی عائد کی گئی۔ یہ طریقہ سزائے موت دینے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ سزائے موت کے مجرم کو لوہے کی کرسی پر بٹھا کر اس کے پورے جسم پر بجلی کی تاریں لگا دی جاتی تھیں اور کرسی میںکرنٹ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ کچھ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجرم کو کرسی کے ساتھ باندھ کر اس کے پاؤں پانی میں ڈال دئیے جاتے تھے اور منہ میں لوہے کا راڈ یا سیخ رکھ دی جاتی تھی۔ بین الاقوامی فورمز پر اس طریقہ کی شدید مخالفت کے بعد2008ء میں برقی کرسی پر پابندی لگادی گئی۔خلامیں رہنے کا ریکارڈ8فروری1974ء کو تین امریکی خلا باز ڈاکٹر ایڈورڈ گبسن، لیفٹیننٹ کرنل جیرالڈ کار اور لیفٹیننٹ کرنل ولیم پوگ سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 85دن خلاء میں رہنے کے بعد بحفاظت زمین پر واپس پہنچے۔ انہوں نے 85 دن امریکی خلائی اسٹیشن اسکائی لیب میں گزارے۔ اسی پروگرام کو مزید جدت کے ساتھ اب دوبارہ شروع کرنے کی تیاریاں کی جائیں گی جس میں خلا اور چاند پر ایسے سٹیشن بنائے جائیں گے جس میں خلا باز طویل عرصے تک قیام کر سکیں گے۔فلسطین ، اسرائیل فائر بندی معاہدہ2005ء میں آج کے روز اسرائیل اور فلسطین کے درمیان فائر بندی کا معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کے باوجود اسرائیل نے بمباری اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ معاہدے کی خلاف ورزی پر فلسطین نے احتجاج بھی کیا لیکن اسرائیلی افواج نے طاقت کا بے رحم استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں پر بھی فائرنگ کر دی۔ معاہدے کی خلاف ورزی کو بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کا نشانہ بنا یا گیا لیکن اسرائیل نے اس معاہدے کو بھی ماضی کے دیگر معاہدوں کی طرح ہوا میں اڑا دیا اورظلم و ستم کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جاپان روس جنگ کا آغاز8 فروری 1904ء میں جاپان اور روس کے مابین جنگ کا آغاز ہوا جو 2سال تک جاری رہی۔ کوریا اور منچوریا پر اثرو رسوخ قائم کرنے کو لے کر جاپان اور روس میں کافی عرصہ سے مذاکرات جاری تھے جن کی ناکامی پر جاپان نے روس کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جاپانی بحریہ نے چینی بندرگاہ پورٹ آرتھر پر موجود روسی بحر ی بیڑے پر پے درپے حملے کر کے جنگ کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ان حملوں سے روسی بیڑے کو شدید نقصان پہنچا۔  

یادرفتگاں:تم ہی ہو محبوب میرے ایم اشرف

یادرفتگاں:تم ہی ہو محبوب میرے ایم اشرف

ایم اشرف ، پاکستانی فلمی تاریخ کے سب سے کامیاب ترین موسیقار تھے جن کے کریڈٹ پر بہت بڑی تعداد میں سپر ہٹ گیت ہیں۔ انھوں نے چار عشروں کے فلمی کریئر میں چار سو سے زائد فلموں میں تقریباً اڑھائی ہزار سے زائد اردو اور پنجابی گیت کمپوز کیے تھے۔یکم فروری 1938ء کو پیدا والے ایم اشرف شروع میں منظور اشرف کے نام سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے۔ دراصل یہ دو افراد تھے منظور اور اشرف پھر بعد میں یہ الگ ہو گئے اور اشرف صاحب ایم اشرف کے نام سے فلموں میں موسیقی دینے لگے۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنے نانا سے موسیقی کی تربیت لی جو ماسٹر عنایت حسین کے ماموں تھے۔انہوں نے اپنے ماموں اختر حسین اکھیاں کے معاون کے طور پر بہت عرصہ تک کام کیا۔ اختر حسین اکھیاں بڑے باکمال موسیقار تھے اور ان کی عظمت کا ایک زمانہ معترف رہا۔ 1961ء میں انہوں نے فلم ''سپیرن‘‘ کی موسیقی دی اور اسی فلم سے گلوکاراحمد رشدی کو زبردست شہرت ملی۔ احمد رشدی نے ایم اشرف کی موسیقی میں جو گیت گایا اس کے بول تھے ''چاند سا مکھڑا گورا بدن‘‘ احمد رشدی کو یہ خوبصورت گیت گانے پر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ منظور اور اشرف نے 1956ء سے 1967ء تک اکٹھے کام کیا۔ 1967ء میں ایم اشرف علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے ''سجدہ‘‘ فلم کی موسیقی ترتیب دی۔ اس کے بعد ایم اشرف کو مختلف فلموں کا شاندار میوزک دینے پر نگار ایوارڈ دیئے گئے۔ ان فلموں میں ''گھرانہ میرا نام ہے محبت‘ شبانہ اور قربانی‘‘ شامل ہیں۔ ایم اشرف بڑی دلکش دھنیں بناتے تھے اور ان کی موسیقی آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ انہوں نے 1963ء میں فلم ''تیس مار خان‘‘ میں سب سے پہلے گلوکار شوکت علی کو متعارف کرایا۔ 1974ء میں فلم ''ننھا فرشتہ‘‘ میں گلوکارہ ناہید اختر کو گانے کا موقع دیا۔ اس گانے کے بول تھے ''جانے کیوں دل تڑپتا رہتا ہے‘‘۔ نیرہ نور کا پہلاسپرہٹ گیت بھی ایم اشرف کی موسیقی میں تھا۔ رجب علی نے بھی 1971ء میں ان کی فلم ''یادیں‘‘ میں ایک دلکش گیت گایا۔ اس کے بعد اسد امانت علی خان کو بھی شباب کیرانوی کی فلم ''سہیلی‘‘ میں 1978ء میں موقع دیا۔ اسد امانت علی خان نے پہلے ہی گیت سے دھوم مچا دی۔ دراصل ایم اشرف بہت عرصے سے اس کوشش میں تھے کہ اسد امانت علی خان سے پلے بیک گائیکی کرائی جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اسد امانت علی خان ایک اچھے پلے بیک سنگر بن سکتے ہیں اور ان کی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اسد امانت علی خان نے بعد میں خود ہی دلچسپی نہیں لی وگرنہ وہ بہت دھوم مچا سکتے تھے۔ ایم اشرف نے پاکستان میں کئی ریکارڈ قائم کئے۔ انہوں نے سب سے زیادہ فلموں کی موسیقی دی اور اس کے علاوہ چار اہم گلوکاروں کے ساتھ بیک وقت کام کیا جن میں نور جہاں، مہدی حسن، مسعود رانا اور احمد رشدی شامل ہیں۔ ایم اشرف کو چوٹی کے نغمہ نگاروں کی خدمات بھی حاصل رہیں جن میں فیاض ہاشمی، تسلیم فاضلی‘ قتیل شفائی‘ کلیم عثمانی اور خواجہ پرویز شامل ہیں۔ انہوں نے ناہید اختر سے بڑے شاندار نغمات گوائے۔ 1974ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''شمع‘‘ میں ناہید اختر نے ان کی موسیقی میں بڑے خوبصورت گیت گائے۔ خاص طور پر ناہید اختر کا گایا ہوا گیت ''کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی‘‘ آج بھی اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایم اشرف نے مہدی حسن سے بڑے باکمال گیت گوائے۔ فلم ''شبانہ‘‘ میں انہوں نے مہدی حسن سے ایک ایسا رومانی گیت گوایا جسے بے پناہ شہرت ملی اس گیت کے بول تھے ''تیرے بنا دنیا میں‘‘ خود مہدی حسن حیران تھے کہ ایم اشرف نے ان کی صلاحیتوں کو کس خوبصورتی سے استعمال کیا کیونکہ مہدی حسن کا انداز گائیکی اس سے بہت مختلف تھا۔ ایم اشرف نے بہت کام کیا شباب کیرانوی کی فلم ''مہتاب‘‘ میں حزین قادری کا لکھا ہوا یہ گیت ''گول گپے والا آیا‘ گول گپے لایا‘‘ بھی اپنے زمانے کا سپرہٹ گیت تھا۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایم اشرف کے مشہور گیتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ایم اشرف ، ان تین موسیقاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے مسعودرانا سے سو سے زائد گیت گوائے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1964ء سے 1976ء تک ان دونوں کے مسلسل ساتھ کے بعد ایک آٹھ سال کا گیپ آتا ہے لیکن پھر آخری دس برسوں میں پچاس سے زائد مشترکہ گیت ملتے ہیں۔ جب اردو فلمیں زوال کا شکار ہوئیں اس وقت بھی ایم اشرف کی شہرت کا آفتاب چمک رہا تھا۔ وہ یقینی طور پر بڑے ذہین موسیقار تھے اور ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ ہر قسم کے گیتوں کو اپنی لاجواب موسیقی سے امر کر دیتے تھے۔ شباب کیرانوی کی زیادہ تر فلموں کی موسیقی ایم اشرف ہی نے دی تھی۔ 4 فروری 2007ء کو ایم اشرف حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ ان کا نام بھی زندہ ہے اور کام بھی۔مقبول گیت1۔ تم ہی ہو محبوب میرے (آئینہ)2۔ یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم (میرا نام ہے محبت)3۔ ہمارے دل سے مت کھیلو (دامن اور چنگاری)4۔ تیرے بنا دنیا میں (شبانہ)5۔ کسی مہرباں نے آ کے (شمع)6۔ آنکھیں غزل میں آپ کی (سہیلی)7۔ تو ر ترو تارا تارا (محبت زندگی ہے)8۔ بے ایمان چاہوں تجھے صبح و شام (جب جب پھول کھلے)9۔ جو درد ملا انہوں نے سے ملا (شبانہ)10۔ تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا (گھرانہ)  

علی کی عقلمندی

علی کی عقلمندی

حامد شہر سے تھوڑی دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں کے بازار میں اس کی ایک بیکری تھی۔ گاؤں کے لوگ اسی بیکری سے سامان خریدتے تھے کیونکہ اس کی بیکری کی چیزیں تازہ ہوتی تھیں۔

چڑیا گھر کی سیر !

چڑیا گھر کی سیر !

سعید چھٹی جماعت کا ایک ذہین اور سمجھدار طالب علم تھا، وہ ہمیشہ اپنی جماعت میں اوّل آتا۔ دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی سیر و تفریح کا بہت شوقین تھا۔سعید اور اس کے بہن بھائی ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور اپنے تایاکے پاس رہنے آتے اور وہاں کے خوبصورت مقامات کی سیر کرتے۔

پہیلیاں

پہیلیاں

آگ لگے میرے ہی بل سے ہر انساں کے آتی کام دن میں پودے مجھے بناتےاب بتلائو میرا نام(آکسیجن گیس)

 بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

ٹیلی فون کی ایجاد انسانی آوازیںہمارے کانوں تک اس لئے پہنچتی ہیں کہ وہ ہوا میں ارتعاش پیدا کرتی ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے الیگزینڈر گر اہم بیل نے کوشش کی کہ آواز کے ان ارتعاشات کو برقی سگنلز میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ فاصلے تک سنا جا سکے۔کئی کوششوں کے بعد بالآخر 1876ء میں وہ اپنے تجربے میں کامیاب ہو گیا۔پہلی ٹیلی فون کال میں گرا ہم بیل نے مکان کے دوسرے کمرے میں موجوداپنے نائب سے کہا ’’واٹسن یہاں آئو،مجھے تمہاری ضرورت ہے‘‘۔

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز