نغمہ نگاری کے میدان میں جن کا طوطی بولتا تھاناظم پانی پتی برصغیر کی فلمی صنعت کی ایک معروف شخصیت تھے ، جنہوں نے پہلے ہندوستان اور بعدازاں پاکستان کی فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1948ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''مجبور‘‘میں شامل گیت ''دل میرا توڑا مجھے کہیں کا نہ چھوڑا،تیرے پیار نے‘‘ شاید کبھی آپ کی سماعتوں سے ٹکرایا ہو ، یہ گیت نغمہ نگار اور کہانی نویس ناظم پانی پتی نے لکھا تھا۔اس گیت کی موسیقی موسیقار اعظم ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی تھی جو اس وقت بمبئی کی فلم انڈسٹری پر چھائے ہوئے تھے۔ وہ موسیقی میں تجربے کرنے کے بہت شائق تھے اور نئی آوازوں کے متلاشی رہتے تھے۔ فلمی ادارے کے میوزک روم میں ماسٹر صاحب کے ساتھ نذیر اجمری اور یونٹ سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگ بھی بیٹھے تھے۔ ماسٹر صاحب کے سامنے ہارمونیم پڑا تھا۔ سامنے کرسی پر ایک دھان پان سی لڑکی بیٹھی تھی۔بائیں طرف نغمہ نگار ناظم پانی پتی براجمان تھا۔ ماسٹر غلام حیدر نے مسکرا کر ناظم سے کہا کہ یہ لڑکی آپ کے گیت سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرے گی اور اس کا نام لتا ہے،لتا منگیشکر۔ نذیر اجمری نے ''مجبور‘‘کی ایک سچویشن ناظم پانی پتی کو سمجھائی۔ انہوں نے اس سچویشن پر ایک دو مکھڑے کہے جن میں سے یہ مکھڑا پسند کر لیا گیا ''دل میرا توڑا مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، تیرے پیار نے‘‘۔ جب گیت کی ریکارڈنگ شروع ہوئی تو سب لوگ جھوم رہے تھے۔ اس گیت نے جہاں لتا کو شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا وہاں ناظم پانی پتی کو بھی صف اوّل کے گیت نگاروں میں شامل کر دیا ۔ اس دور کے نامور اداکار اور فلمساز سہراب مودی نے اپنی اگلی فلم ''شیش محل‘‘کیلئے ناظم صاحب کو تمام گیت لکھنے کیلئے بک کر لیا۔جس گیت نے ناظم صاحب کو فلم بینوں سے بھرپور انداز میں متعارف کرایا وہ محمد رفیع کا گایا ہوا تھا، اس کے بول تھے:جگ والا میلہ یار تھوڑی دیر داہنسدیا ں رات لنگے پتا نیئں سویر دا یہ گیت پنجابی فلم ''لچھی‘‘کیلئے لکھا گیا تھا۔ جس سے ناظم صاحب کو اتنی مقبولیت ملی کہ فلمی دنیا میں ان کا طوطی بولنے لگا۔ناظم پانی پتی نے اپنے بڑے بھائی ولی جوگرامو فون کمپنیوں کیلئے گیت لکھا کرتے تھے کی دیکھا دیکھی گراموفون کمپنیوں کیلئے گیت لکھنے شروع کر دئیے۔ ان کمپنیوں کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر ، ماسٹر جھنڈے خاں ، بھائی لال محمد ، ماسٹر عنایت حسین اور جی اے چشتی تھے۔ لاہور میں بننے والی پنجابی فلم ''یملا جٹ‘‘ جو بے حد مقبول ہوئی۔ اس کے بعد لاہور ہی میں خزانچی ، منگتی، خاندان، دلا بھٹی، زمیدار، پونجی، چوہدری اور داسی جیسی فلمیں بنیں۔ ان فلموں نے ہندوستان میں مسلمان فنکاروں کی دھوم مچا دی ۔ ناظم پانی پتی بطور گیت نگار ، سکرین پلے رائٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ان تمام فلموں سے منسلک رہے۔نامور صحا فی سعید ملک نے ناظم پانی پتی کا ان کی زندگی میں ایک طویل انٹرویو لیا جو انگریزی روزنامے میں پانچ قسطوں میں چھپا تھا۔ اس میں ناظم صاحب نے انکشاف کیا تھا کہ میں بمبئی کے علاقے باندرہ میں رہتا تھا۔ گھر کے قریب ایک پارک تھا۔ وہاں میں کبھی کبھار اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرنے چلا جاتا تھا۔ وہاں بدر الدین نام کا ایک نوجوان مجھ سے بڑی عقیدت اور ادب کے ساتھ پیش آتا ، مجھے سگریٹ لا کر دیتا ، کبھی کبھی سر کی مالش بھی کیا کرتا تھا۔ بدر الدین اس زمانے کے مشہور اداکاروں کی کامیاب نقل اتارا کرتا تھا ۔ ایک روز اس نے مجھ سے فلم میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، میں اسے مقامی سٹوڈیو میں لے گیا جہاں فلم ''بازی‘‘کیلئے جیل سے قیدیوں کا جیل سے فرار کا منظر فلمایا جا رہا تھا ۔ڈائریکٹر نے میری سفارش پر بدر الدین کو ایک شرابی کا رول دے دیا ۔ اس نے یہ رول اس خوبی سے ادا کیا کہ سب حیران رہ گئے ۔ اس دن سے وہ فلمی دنیا میں جانی واکر کے نام سے مشہور ہو گیا ۔نامور ڈانسر ہیلن کو بھی ناظم صاحب نے اپنے بھائی کی فلموں سے متعارف کرایا۔ بمبئی میں نام کمانے کے بعد 1952ء میں وہ اپنے بڑے بھائی ولی صاحب کے ساتھ لاہور آگئے اور ان کی تیار کردہ فلموں ''گڈی گڈا‘‘،''سوہنی کمیارن‘‘ اور ''مٹی دیاں مورتاں‘‘ کے ساتھ ساتھ دیگر فلموں کیلئے بھی گیت لکھے ۔ بالخصوص ان کی لکھی فلم ''لخت جگر‘‘کی لوری''چندا کی نگری سے آجا ری نندیا‘‘ پاکستان کی مقبول ترین لوریوں میں شمار ہوتی ہے۔ انہوں نے شباب کیرا نوی کی فلم ''آئینہ‘‘ اور ''انسانیت‘‘کیلئے بھی گیت لکھے ۔ ایس ایم یوسف کی فلم''سہیلی‘‘اور رضا میر کی فلم ''بیٹی‘‘ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور کہانی نویس تھے۔پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آنے پر موسیقی کے پروگرام ''جھنکار‘‘کیلئے انہوں نے متعدد گیت لکھے۔ 1966ء میں ریڈیو پاکستان سے جب کمرشل پروگرام اور اشتہارات شروع ہوئے تو وہ اشتہاری کمپنیوں سے بطور کاپی رائٹر منسلک ہو گئے اورکئی یادگار سلوگن لکھے جن میں ''ہم تو جانے سیدھی بات، صابن ہو تو سات سو سات‘‘ اور''اٹھ میرے بیلیا پاڈان تیرے کول اے‘‘ شامل ہیں ۔ناظم پانی پتی کے قریبی دوستوں میں موسیقار خیام، نصیر انور، گلوکار سلیم رضا، اداکار ساقی، بھارتی فلمساز و ہدایتکار راجند بھاٹیہ، گلوکار جی ایم درانی ، سید شوکت حسین رضوی ، آغا جی اے گل ، رضا میر اور سعاد ت حسن منٹو شامل تھے ۔ یاد رہے کہ منٹو کو ان کی وفات پر ناظم صاحب نے ہی غسل دیا اور کفنانے کا فریضہ ادا کیا۔ناظم پانی پتی نے زندگی کے آخری سال خاموشی اور گمنامی میں گزارے۔ عمرہ ادا کیا اور واپسی پر یہ شعر موزوں کیا:پڑا رہ مدینے کی گلیوں میں ناظم تو جنت میں جا کر بھلا کیا کرے گا وفات (18 جون 1998ء) سے چند روز قبل ناظم انہوں نے میری ڈائری پر اپنے ہاتھ سے یہ بند لکھا جو ان کی زندگی کی آخری تحریر اور تخلیق ثابت ہوئی :چراغ کا تیل ختم ہو چکا ہے زندگی کا کھیل ختم ہو چکا ہے سانس ہو رہے ہیں آزاد عرصہ جیل ختم ہو چکا ہے