راولپنڈی :(دنیا نیوز) پی ایس ایل 10 کی افتتاحی تقریب کا آغاز قومی ترانے سے ہوگیا۔
راولپنڈی :(دنیا نیوز) پی ایس ایل 10 کی افتتاحی تقریب کا آغاز قومی ترانے سے ہوگیا۔
اسلام آباد ( سٹاف رپورٹر ، نامہ نگار ،نیوز ایجنسیاں،مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر داخلہ محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں اپنے تحریری جواب میں کہا وزارت داخلہ نے غیرقانونی طور پر ایران اور یورپ جانے کی کوشش کرنے والے 50 ہزار افراد کے پاسپورٹس بلیک لسٹ کردئیے ہیں۔
اسلام آباد(اپنے رپورٹرسے ، مانیٹرنگ ڈیسک )مجلس اتحادامت پاکستان کی قومی کانفرنس بعنوان فلسطین اور امت مسلمہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمن نے کہاکہ شرعاً تمام مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے عالمی ضمیر مردہ ، ادارے بے بس ہو چکے ہیں۔
اسلام آباد(نامہ نگار،دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک)نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے تین ماہ کیلئے بجلی کی قیمتوں میں ایک روپے 71 پیسے یونٹ کمی کی منظوری دے دی تاہم دوسری جانب گیس مہنگی کرنے کی تیاری شروع کردی گئی۔
لاہور(اپنے نامہ نگار سے )وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے آسان کاروبار فنانس اورآسان کاروبار کارڈسکیم کو آسان تر بنانے کی ہدایت کی اور حکم دیا ہے کہ کاروباری حضرات کو ضرورت کے مطابق قرض دئیے جائیں۔
لاہور (کورٹ رپورٹر)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ایف آئی آر سے لیکر مقدمہ کے فیصلے تک ون کلک پر مکمل ریکارڈ کا انٹیگریٹڈ کریمینل جسٹس سسٹم پائلٹ پراجیکٹ کا لاہور اور رحیم یار خان میں افتتاح کردیا۔
لاہور(محمد حسن رضا سے )فارن انویسٹمنٹ پاکستان لانے کا نیا پلان، وزیراعظم آفس کی جانب سے مالدار اوورسیز پاکستانیوں کو متوجہ کرنے کے لئے چاروں صوبوں سے مستحکم سرمایہ کاری منصوبوں کی تفصیلات بشمول پی سی ون مانگ لئے گئے ۔
اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)اسلام آباد ہائی کورٹ نے جنوری 2024 سے لاپتہ چار افغان بھائیوں کی بازیابی کیلئے درخواست میں آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کوذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
راولپنڈی ، لاہور ، پشاور (خبر نگار ، کورٹ رپورٹر ، مانیٹرنگ ڈیسک )بانی پی ٹی آئی سے رفقاء کی ملاقات نہ ہو سکی ۔ عمر ایوب ،نیاز اللہ نیازی جیل گیٹ پر پہنچنے میں کامیاب ،صاحبزادہ حامد رضا ،علامہ ناصر عباس راجا ملک احمد بھچر کو پولیس نے ناکہ پر روکے رکھا۔
اگر چہ پاکستان کو قدرت نے نمک کے بہت وسیع ذخائر سے نوازا ہے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک پاکستان نمک کے ان ذخائر کوٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کر سکا ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں بہت سے ملکوں سے پیچھے ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں 24 لاکھ ٹن سالانہ کے ساتھ دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے۔ اس کے مقابلے میں چین سالانہ 6 لاکھ کروڑ ٹن کی نمک کی پیداوار کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے پاکستان میں صنعتی شعبہ کمزور ہونے کے باعث بھی نمک سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔نمک کا تکنیکی نام سوڈیم کلورائیڈ (NaCl) ہے۔ بظاہر کم قیمت اور معمولی سمجھا جانے والا نمک در حقیقت قدرت کا انتہائی اہم معدنی تحفہ ہے جو کھانوں کو ذائقہ بخشنے کے علاوہ بہت سے صنعتوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں نمک کے 6 ارب سے زائد ذخائر موجود ہیں۔ ضلع جہلم میں کھیوڑہ کی نمک کی کان دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے پاکستان میں کھیوڑہ کے علاوہ نمک کی کانیں واڑچھا ضلع خوشاب، کالا باغ ضلع میانوالی اور بہار خیل ضلع کو ہاٹ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی نمک کی شناخت ''ہمالین سالٹ ‘‘کے نام سے ہے۔ اس کو ''پنک سالٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پایا جانے والا نمک 99 فیصد خالص ہے اس میں کیلشیم میگنیشیم ، زنک، آئرن اور کئی دوسرے منرلز پائے جاتے ہیں۔نمک کا سب سے اہم استعمال کھانوں کی تیاری میں ہوتا ہے جو نہ صرف کھانوں کو خوش ذائقہ بناتا ہے بلکہ جسمانی نظام اور صحت کو برقرار رکھنے میں میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نمک خلیوں کی کارکردگی اور فعالیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بطور الیکٹرولائٹ بھی بہت ضروری ہے نمک جسمانی توازن اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔ آئیوڈین والا نمک جسم میں آئیوڈین کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، جس سے تھائرائیڈ ہارمون بنتا رہتا ہے اور گلہر کی بیماری سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر نمک انسانی جسم کے افعال کے لیے اس قدراہم ہے کہ ڈائیریا کے مرض کی وجہ سے جسم میں نمکیات اور پانی کی کمی ہونے کی وجہ سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ نمک کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے کیونکہ نمک کی زیادتی ہائی بلڈ پر یشر اور دل کے امراض کی وجہ بن سکتی ہے۔نمک کا استعمال صرف کھانوں کی تیاری تک محدود نہیں۔ نمک بہت کسی کیمیائی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو صنعتی پیمانے پر کاسٹک سوڈا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا صابن اور سرف بنانے کے لئے انتہائی اہم جزو ہے۔ اس کے علاوہ اس کو کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دیگر صنعتی اشیاء تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا بنانے کے عمل سے ہی کلورین بھی پیدا ہوتی ہے۔ کلورین کو بڑے پیمانے پر پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا اور کلورین کے علاوہ بھی نمک کو کیمیکل انڈسٹری میں بہت وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ تقریباً آدھے سے زائد کیمیکلز کی تیاری میں کسی نہ کسی مرحلے پر نمک لازماً استعمال کرنا پڑتا ہے۔نمک کو پینٹ ، رنگ اور ڈائیاں بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گلاس، پولی ایسٹر ، ربڑ، پلاسٹک اور کپڑے کی صنعت میں بھی نمک استعمال کیا جاتا ہے۔ چمڑا بنانے کے کارخانوں میں بھی نمک کو جانوروں کی کھالوں کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صنعتیں جو ملکی معشیت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، نمک کے بغیر نہیں چل سکتیں۔صنعتوں سے باہر بھی نمک بہت سے اہم کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو تیل کے کنویں کی مٹی کو پائیدار بنانے اور کنویں کو گرنے سے بچانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نمک سٹرکوں پر جمی برف ہٹانے، کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دھاتیں صاف کرنے کے بھی کام آتا ہے۔ نمک کو فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں سیلائن سولیوشنز ، گولیاں اور آئنمنٹس بنانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نمک کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کرے۔ صنعتی شعبے کی ترقی کیلئے صنعت کاروں کو مراعات دی جائیں اور جن صنعتوں میں نمک استعمال ہوتا ہے ان کوٹیکس میں خصوصی چھوٹ دی جائے تا کہ پاکستانی اشیاء عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں اور ملک کو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہو۔ انہی اقدامات سے ممکن ہو سکے گا کہ پاکستان اللہ کے دیئے گئے نمک کے تحفے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔
شمالی افریقہ میں خلیج تیونس کے کنارے ایک تکونی جزیرہ نما واقع ہے۔ اس پر قدیم زمانے میں فونیقی قوم نے ایک خوبصورت شہر تعمیر کیا تھا۔ اس کا نام قرطاجنہ (Carthage) تھا۔ یہ شہر ترقی کر کے ایک شہری ریاست بن گیا تھا۔ قرطاجنہ کے ابتدائی آبادکار جو فونیقی شہر صور (Tyre) سے تعلق رکھتے تھے، پہلے پہل بارہویں صدی قبل مسیح میں یہاں پہنچے تھے۔ ان کا مقصد ایک نوآبادی قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اسباب تجارت کے لیے ایک منڈی تلاش کرنا بھی تھا۔ تعمیر روم کے افسانے کی طرح قرطاجنہ کی تعمیر بھی افسانوی طور پر 814 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ اس افسانوی روایت کے مطابق صور کی شہزادی ڈیڈو (Dido) جب اپنے بھائی شاہ پگمالیون (صور کی تاریخ میں اس نام کا ایک بادشاہ گزرا ہے) کے مظالم سے بھاگ کر شمالی افریقہ پہنچی تو اس نے خلیج تیونس کے کنارے اس مقام پر ایک شہر کی تعمیر کے لیے مقامی لوگوں سے ایک کھال کے برابر جگہ حاصل کی، پھر شہزادی نے چالاکی سے کھال کو باریک اور پتلی پٹیوں میں کاٹنے کا حکم دیا۔ بعدازاں ان باریک پٹیوں کی مدد سے ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا۔ اسی رقبے پر قرطاجنہ کی تعمیر ہوئی۔ قرطاجنہ شہر کے عین درمیان میں ایک چٹان پر ایک قلعہ تھا جو بیرصہ (Byrsa) کہلاتا تھا۔ اسی قلعے کے اردگرد قرطاجنہ کا پورا شہر آباد تھا۔ یہ شہر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم دنیا کا ایک اہم شہر بن گیا اور روم کے ہمسر کے طور پر ابھرا۔ رومی اس شہر کے باشندوں کو پیونی (Poeni) کہتے تھے، جو فونیقی (Phoenician)کی ایک بدلی ہوئی شکل تھی۔ اسی لفظ کی وجہ سے بعدازاں روم اور قرطاجنہ کے درمیان تیسری اور دوسری صدی قبل مسیح میں لڑی جانے والی جنگیں پیونک جنگیں کہلاتی ہیں۔ قرطاجنہ کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی مذکورہ تاریخ غالباً خود قرطاجنی باشندوں نے اپنی مبالغہ آرائی سے قائم کی تھی۔ جدید آثار قدیمہ کی تحقیق کی روشنی میں جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ اس تاریخ سے موافقت نہیں رکھتے۔ اثریاتی کھدائیوں سے کوئی چیز ایسی دستیاب نہیں ہوئی جس کا تعلق آٹھویں صدی قبل مسیح کے آخر سے پہلے کے زمانہ سے بنتا ہو۔ قرطاجنہ کے بارے میں سب سے قدیم حوالہ ہمیں 509 قبل مسیح میں ملتا ہے، جب روم اور قرطاجنہ میں تجارتی مراعات کے بارے میں ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں اہل قرطاجنہ نے سسلی فتح کرنے کی ناکام کوشش کی جس کی وجہ سے اہل روم سے مخاصمت کا آغاز ہوا۔ بعد میں سسلی ہی پر اہل قرطاجنہ کی یورشوں سے پیونک یا قرطاجنی جنگیں پیش آئیں۔ ان کے آخر میں 146 قبل مسیح میں رومی جنرل سیپیوایفرایکٹس اصغر نے قرطاجنہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور شہر کو جلا کر مسمار کرایا۔ 122 قبل مسیح میں رومی سینیٹ نے دو رومی امیروں گایوس گریکس (Gaius Gracchus) اور مارکوس فلویس فلیکس کو قرطاجنہ کے کھنڈرات پر ایک رومی نوآبادی قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی لیکن کوشش بارآور نہ ہو سکی۔ اس کے بعد جولیس سیزر نے روم کے ایسے شہریوں کو یہاں آباد کیا جن کے پاس زمینیں نہ تھیں۔ 29 قبل مسیح میں شہنشاہ آگسٹس نے افریقہ میں رومی مقبوضات کے انتظامی امور کے لیے قرطاجنہ کا انتخاب کیا۔ اس کا آباد کردہ قرطاجنہ (Colonia Julia Carthago) کہلاتا تھا۔ جلد ہی یہ قرطاجنہ سکندریہ اور دوسرے کئی رومی نوآبادیاتی شہروں سے زیادہ ترقی کر گیا اور ان کا ہم پلہ قرار پایا۔ اگرچہ کسی بھی رومی شہنشاہ نے یہاں قیام نہیں کیا مگر بیشتر رومی شہنشاہ اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے بعد روم کی سلطنت کے زوال تک قرطاجنہ کی تاریخ پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ البتہ دوسری صدی عیسوی کے آخر تک یہاں عیسائیت اتنی پھل پھول چکی تھی کہ یہاں کی کلیسائی شخصیات میں فادر ترتولین (Father Tertullian) اور سینٹ سائپرین کے نام نمایاں ہیں۔ 439ء میں ونڈال حکمران گائیسرک بغیر کسی مزاحمت کے فاتحانہ طور پر قرطاجنہ میں داخل ہو گیا اور یہاں ونڈال سلطنت قائم ہو گئی، جو تقریباً سو سال تک قائم رہی۔ گیلمیر یہاں کا آخری ونڈال حکمران تھا۔ اسے 533ء میں بازنطینی جنرل بیلیساریوس (Belisarius) نے شکست دی۔ 705ء تک یہاں بازنطینی حکومت قائم رہی اور اس سال اس تاریخی شہر کو مسلم عربوں نے فتح کیا جس کے بعد اس کے ایک قریبی شہر تیونس کو عروج حاصل ہوا اور یہ شہر گہناتا چلا گیا۔ رومی قرطاجنہ بھی قدیم شہر کی طرح بالآخر تباہ ہو گیا مگر اس کے آثار اب تک موجود ہیں۔ ان آثاروں میں رومی آبراہ اور کئی قلعوں کے آثار نمایاں ہیں۔ سابقہ قلعہ بیرصہ کے مقام پر رومی عہد میں جو پیٹر اور مزوا دیوی کا مندر تعمیر ہوا، اس کے علاوہ یہاں ایک غلام گردش بھی تعمیر کی گئی تھی۔ اس غلام گردش کے آثار سے رومی عہد کی سنگ تراشی کے بہترین نمونے دریافت ہوئے ہیں۔ قرطاجنہ کے بازنطینی عہد میں یہاں کئی خوبصورت کلیسا بھی تعمیر ہوئے تھے، مگر اب ان کے آثار مفقود ہیں۔
جرمنی کاڈنمارک پر قبضہ9 اپریل 1940ء کو جرمنی نے ڈنمارک اور ناروے پر حملہ کرتے ہوئے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا۔ بظاہر یہ حملہ ایک منصوبہ بندی کے مطابق کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ جرمنی نے ناروے پر فرانس اور برطانیہ کے قبضے کو دیکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے حملہ کیا ہے۔اس منصوبے کو ''پلان4R‘‘کا نام دیا گیا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان جغرافیہ، محل وقوع اور آب و ہوا میں نمایاں فرق نے فوجی کارروائیوں کو بھی بہت مختلف بنا دیا۔اس حملے کے دوران جرمنی کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔امریکی اٹامک انرجی کمیشن کا قیام1945ء میںآج کے دن امریکی اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔اسے عام طور پر ''AEC‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ایک ایجنسی تھی جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی کانگریس نے ایٹمی سائنس اور ٹیکنالوجی اور امن کو فروغ دینے اور کنٹرول کرنے کیلئے قائم کیا تھا۔ صدر ہیری ایس ٹرومین نے 1946ء میںاٹامک انرجی ایکٹ پر دستخط کیے اور جوہری توانائی کا کنٹرول فوج سے سویلین حکومت کو منتقل کردیا۔یہ حکم یکم جنوری 1947 سے نافذ العمل ہے۔''بوئنگ 737‘‘نے پہلی اڑان بھری 9اپریل 1967ء کوبوئنگ 737 نے اپنی پہلی اڑان بھری۔ یہ ایک تنگ جسامت والا ہوائی جہاز تھا، جسے بوئنگ کمپنی کی جانب سے واشنگٹن میں تیار کیا گیا۔ فروری 1968ء میں Lufthansa کی طرف سے اسے کمرشل سروس میں شامل کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب لمبی جسامت والا 737 کمرشل سروس میں شامل ہوا۔ یہ چار مختلف اقسام میں تیار کیا گیا۔ جس میں 85 سے 215 مسافروں تک کو لے جانے والی مختلف اقسام مارکیٹ میں پیش کی گئیں۔جارجیا نے آزادی کا اعلان کیا9 اپریل 1991ء کو جارجیا نے سوویت یونین سے آزادی کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سوویت یونین کے ٹوٹنے سے کچھ دیر پہلے کیا گیا۔ جارجیا کی سپریم کونسل نے 31 مارچ 1991ء کو منعقدہ ریفرنڈم کے بعد پوری دنیا کے سامنے خود کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے پیش کیا۔26 مئی 1991 ء کو '' زویاد گامسخردیا‘‘ آزاد جارجیا کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ واضح رہے کہ سوویت فوج کی مداخلت کے باعث جارجیا اپنی آزادی کھو بیٹھا تھا اور سوویت یونین کا حصہ بن گیا تھا۔
کسی کی تصویر کو بغیر اجازت متحرک کر کے شیئر کرنااخلاقاً درست نہیںجدید دور میں ٹیکنالوجی نے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نئی جہت دی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) یعنی مصنوعی ذہانت اب صرف سادہ ٹاسکس کے لیے ہی نہیں بلکہ تصویری تخلیقات، اینی میشن، اور ویژول آرٹ کے میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ خاص طور پر اے آئی پر مبنی ایپس میں اینی میٹڈ تصاویر بنانے کا فیچر تخلیقی دنیا میں انقلاب برپا کر چکا ہے۔اینی میٹڈ تصاویر ایسی تصاویر ہوتی ہیں جو حرکت کرتی ہیں یا جن میں مخصوص جزو (مثلاً آنکھیں، ہونٹ، بال، یا پس منظر) متحرک ہوتے ہیں۔ یہ عام طور پر GIF، ویڈیو کلپ یا شارٹ اینی میشن کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اب تک یہ کام پروفیشنل اینی میشن سافٹ ویئر کے ذریعے ماہرین انجام دیتے تھے، مگر اب یہ سب اے آئی ایپس کے ذریعے عام صارفین کیلئے ممکن ہو گیا ہے۔حال ہی میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) پلیٹ فارم چیٹ جی پی ٹی اور گروک سمیت متعدد اے آئی اور دوسرے تصاویر بنانے والے پلیٹ فارمز نے اینی میٹڈ تصاویر بنانے کے فیچرز پیش کئے گئے ہیں۔چیٹ جی پی ٹی نے حال ہی میں جاپان کے معروف اینی میٹڈ اسٹوڈیو 'غیبلی اسٹوڈیو‘ (Studio Ghibli) کے انداز کی تصاویر بنانے کے مفت فیچر تک صارفین کو محدود رسائی دی ہے۔چیٹ جی پی ٹی کے صارفین یومیہ تین تصاویر کو مفت میں غیبلی اسٹوڈیو انداز کی اینیمیشن میں بنا سکتے ہیں۔اے آئی ایپس کا کردارمصنوعی ذہانت سے چلنے والی کئی ایپس نے اینی میٹڈ تصویروں کیلئے حیرت انگیز فیچرز متعارف کروائے ہیں۔ کچھ مشہور اے آئی ایپس درج ذیل ہیں:''مائی ہیرٹیج ‘‘(MyHeritage ): یہ ایپ پرانی تصاویر کو اینیمیٹ کر کے ایسے بناتی ہے جیسے تصویر میں موجود شخص مسکرا رہا ہو، آنکھیں جھپک رہا ہو یا سر ہلا رہا ہو۔''اے آئی وومبو‘‘ (Wombo AI): صارفین اپنی تصویر اپ لوڈ کر کے مختلف گانوں پر لب ہلاتی ہوئی اینی میشن بنا سکتے ہیں۔''ٹاکنگ ہیڈز‘‘ (Tokking Heads): یہ ایپ کسی بھی پورٹریٹ کو متحرک کر کے اسے گفتگو یا تاثرات دینے کے قابل بناتی ہے۔''ری فیس‘‘ او ر ''اے آئی لینزا‘‘: چہروں کو مختلف انداز سے متحرک کر کے تفریحی اور دلکش شارٹ ویڈیوز بناتی ہیں۔یہ فیچر کیسے کام کرتا ہے؟اے آئی اینی میشن فیچر دراصل مشین لرننگ، ڈیپ فیک ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وژن کے امتزاج سے کام کرتا ہے۔ یہ تصاویر میں انسانی چہرے کی شناخت کر کے اس کے مختلف پہلوؤں کو متحرک کرتا ہے، جیسے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی، آنکھوں، ہونٹوں، اور بھنوؤں کی حرکت، پس منظر کو متحرک بنانا، آواز یا موسیقی کے مطابق ہونٹوں کو ہلانا، یہ تمام مراحل چند سیکنڈز میں مکمل ہو جاتے ہیں اور نتیجہ حیرت انگیز طور پر حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے۔تخلیقی دنیا کیلئے فوائد٭...اینی میٹڈ تصاویر سے سوشل میڈیا پوسٹس کو جاندار بنایا جا سکتا ہے۔ لوگ اپنی ساکن تصویروں کو دلچسپ اور مزاحیہ ویڈیوز میں تبدیل کر کے شیئر کرتے ہیں۔٭... برانڈ یا پروڈکٹس کی ترویج کیلئے اینیمیٹڈ بصری مواد استعمال کر سکتے ہیں جو ناظرین کی توجہ کھینچتا ہے۔٭...تاریخی شخصیات یا ادب کی مشہور ہستیوں کی متحرک تصاویر تعلیم کو دلچسپ بنانے میں مدد دیتی ہیں۔٭...آرٹسٹ اپنے کام کو متحرک کر کے نئی جہت دے سکتے ہیں۔ ساکن فن پاروں میں زندگی ڈالنے کا تصور حقیقت بن چکا ہے۔چیلنجز اور خدشاتاگرچہ یہ ٹیکنالوجی حیرت انگیز ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز اور اخلاقی پہلو بھی جڑے ہیں۔تصاویر یا ویڈیوز کو جعلسازی کیلئے استعمال کرنا ممکن ہو گیا ہے، جس سے غلط فہمی یا بدنامی کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کسی کی تصویر کو بغیر اجازت متحرک کر کے شیئر کرنا قانوناً اور اخلاقاً درست نہیں۔ حقیقت اور تخیل کے درمیان فرق مٹنے لگا ہے، جو بعض اوقات ذہنی الجھن یا اعتماد کے فقدان کا باعث بنتا ہے۔مستقبل کا منظرنامہاے آئی اینی میشن ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن مستقبل میں اس کی ایپلی کیشنز مزید بہتر، حقیقت پسندانہ اور اخلاقی لحاظ سے ذمہ دار بننے کی امید ہے۔ ہم ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہر شخص چند کلکس میں اپنی خیالات کو اینی میشن کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر سکے گا۔اے آئی ایپس میں اینی میٹڈ تصاویر بنانے کا فیچر محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ تخلیقی اظہار، ڈیجیٹل آرٹ، اور کمیونیکیشن کا نیا باب ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہمیں اپنی یادوں، خیالات، اور جذبات کو ایک نئے انداز سے دیکھنے، سمجھنے اور پیش کرنے کی طاقت دیتی ہے، لیکن اس کا استعمال شعور اور ذمے داری کے ساتھ کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔
خشک سالی صرف زمین کی پیاس نہیں، بلکہ انسانیت کے اعمال کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ جب زمین سے بارش تھم جائے، کھیتیاں سوکھ جائیں، جانور مرنے لگیں، تو ہمیں صرف آسمان کو نہیں بلکہ اپنے دل کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کیلئے توبہ واستغفارکرکے گناہوں کی معافی بھی مانگنی چاہیے اوراللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،
ہمارے معاشرہ میں بہت سی ایسی بیماریاں وجود میں آ ئی ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں بے سکونی اور بد امنی پھیلتی چلی جا رہی ہے معاشرہ کا سکون تباہ وبرباد ہوتا جا رہا ہے ان بیماریوں میں سب سے بڑی اور مہلک بیماری رشوت لینا ہے رشوت ایک ایسے ناسور کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ ہر چیز کو برباد کر دیتا ہے۔
جمعہ کا دن نہایت متبرک ،سیدالایام ہے۔ ایمان والا صبح ہی سے خصوصی اعمال، پاکی صفائی، غسل، خوشبو،عمدہ لباس زیب تن کرنے کے بعد جامع مسجد میں دورکعت شکرانہ اداکرنے کیلئے جاتا ہے ۔