مہرستان: (دنیا نیوز) ایران کے صوبہ سیستان میں 8 پاکستانی شہریوں کے قتل کا لرزہ خیز واقعہ پیش آ گیا۔
مہرستان: (دنیا نیوز) ایران کے صوبہ سیستان میں 8 پاکستانی شہریوں کے قتل کا لرزہ خیز واقعہ پیش آ گیا۔
کوئٹہ،اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ،نیوز ایجنسیاں )ایران میں پاک ایران سرحد کے قریب دہشت گرد تنظیم نے فائرنگ کر کے 8پاکستانیوں کو قتل کر دیا ،جاں بحق افراد کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاولپور سے تھا،ان پاکستانیوں کو ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں قتل کیا گیا ۔
لاہور(کامرس رپورٹر،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مہنگائی کی شرح میں کمی کا فائدہ عوام کو نہ پہنچنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے اگر مہنگائی میں کمی کے اعداد و شمار کا ثمرعوام تک نہیں پہنچ رہا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اناطولیہ(دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اناطولیہ ڈپلومیسی فورم میں تعلیم کی انقلابی طاقت کے عنوان سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کیلئے عالمی معاہدہ تشکیل دیا جائے ، ہمارا ویژن ہے ہر بچہ سکول میں داخل ہو اور سکول میں پڑھتا رہے اور کامیابی حاصل کرے ۔
لاہور (سیاسی نمائندہ،صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا بنیادی اور دیہی مراکز صحت کو آؤٹ سورس نہیں کرنے دیں گے۔
اسلام آباد (اپنے نامہ نگار سے ) وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا حکومت کا وکلا کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس میں کبھی دھوکا نہیں ہو گا۔
پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے صدر جنید اکبر نے کہا ہے کہ گولیوں اور جیلوں سے ڈرنے والے کارکنان گھر چلے جائیں، پارٹی میں گروپ بندی ہے۔
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)پاکستان پیپلز پارٹی کے انٹراپارٹی انتخابات12 اپریل 2025کو سینٹرل سیکرٹریٹ اسلام آباد میں ہوئے ۔
اناطولیہ(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز ڈپلومیسی فورم 2025 کے تحت بین الاقوامی کانفرنس میں مرکز نگاہ بن گئیں۔
گئے وقتوں میں زمینیں مملکت کی ملکیت ہوا کرتی تھیں اور مملکت بادشاہوں، نوابوں اور راجاؤں کی ملکیت ہوا کرتی تھی۔ اس لئے شہر اور قصبے بسانا بادشاہوں اور حکمرانوں کا اختیار ہوا کرتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ایسے بہت سارے شہروں کے نام ملتے ہیں جن کے محل وقوع یا قدرتی حسن نے چلتے چلتے وقت کے شہنشاہوں کو پہلی نظر میں متاثر کیا اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد سرسبز ویرانہ ایک خوبصورت وادی میں بدل چکا ہوتا تھا۔ ڈیرہ غازی خان شہر سے لگ بھگ 85 کلومیٹر کی دوری پر قدرتی حسن سے مالا مال، با لخصوص سرسبز پہاڑوں اور جنگلات سے آراستہ ایک علاقہ ''فورٹ منرو‘‘ کا ہے۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے تپتی گرمیوں میں بھی اس کا درجۂ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے۔ برطانوی دور میں اسے آباد کیا گیا کیونکہ سرکاری افسران اپنے عملے اور دفاتر سمیت یہاں منتقل ہو جایا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اسے جنوبی پنجاب کا ''مری‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک وادی پنجاب کے ضلع خوشاب کی ''سون سکیسر‘‘ ہے جہاں سے اپنے دور کے عظیم فاتح ظہیر الدین بابر کا گزر ہوا۔وہ اس وادی کے حسن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے کئی دن تک اپنے قافلے سمیت یہاں پڑاو ڈالے رکھا۔ اس شہر کے حسن میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے بابر نے یہاں متعدد باغات لگانے کا حکم دیا تھا۔ ایسے ہی قدیم وادیٔ سندھ میں بھکر، روہڑی اور سکھر کے درمیان قلعہ نما، ایک قدیم شہر ہوا کرتا تھا۔جس کی صبحیں روشن اور شامیں دلفریب اور پورے برصغیر میں مشہور تھیں۔دریا، پہاڑ اور صحراؤں کے ملاپ نے بھکر کو وادیٔ سندھ کا ایک حسین مرکز بنا دیا تھا۔ بھکر اپنے محل وقوع اور جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے خطے میں نمایاں حیثیت کا حامل ہوا کرتا تھا ۔تقریباً چھ سو سال تک بھکر دفاعی حیثیت سے سندھ کا دفاعی مرکز رہا۔ بھکر، پرانے سندھ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ بعض تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ سکھر ، بنیادی طور پر بھکر ہی کا بگڑا ہوا نام ہے۔سولہویں صدی کے آخری عشرے میں ہندوستان ، بشمول سندھ پر مغلوں کا راج تھا۔ ابو قاسم المعروف نمکین خان بھکر کے گورنر تھے۔ ایک دن گورنر نمکین خان کا قافلہ روہڑی کے قریب دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ رواں دواں تھا، یہ مغرب کا وقت تھا اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔اس دوران نمکین خان کی نظر اچانک روہڑی کے قریب دریائے سندھ کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت سرسبز و شاداب چھوٹی سی پہاڑی پر پڑی، جہاں ڈوبتے سورج کے اس دلکش منظر نے مکین خان کوکچھ اس طرح مسحور کر دیا کہ اس نے اس چھوٹے سے جزیرے پر جسے بعد میں ''بھکر آئی لینڈ‘‘ کے شہرت ملی ، اپنے قافلے سمیت یہاں پڑاو ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ یہ جگہ تاریخ میں ''ستھین جو آستان‘‘ کی شہرت رکھتی ہے جو بنیادی پر سات کنواری ، پاکباز بیبیوں کی سات قبروں کے حوالے سے آباد ہے۔کچھ روایات میں یہ سات بیبیاں، سات بہنوں کی شناخت جبکہ بعض حوالوں سے سات سہیلیوں کی شناخت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ تاریخ ان بیبیوں کی اصل شناخت بارے مکمل طور پر خاموش ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس مقام کو جسے ''ستھین جوآستان‘‘ کی شہرت حاصل ہے تاریخی حیثیت دلانے میں گورنر بھکر ، ابوقاسم نمکین خان کا کردار نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ جسے انہوں نے سولہویں صدی کے آخر میں تعمیر کرایا تھا۔ ستھین جو آستان ہے کیا؟ دریائے سندھ کے عین وسط میں ایک جزیرے پر واقع ستھین جو آستان اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکشی کے سبب دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ ''ستھین جو آستان‘‘ کے لفظی معنی سات بہنوں یا سات سہیلیوں کے آستانے کے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ جگہ ایک بہت بڑے قدیم قبرستان پر مشتمل ہے جہاں سو سے زائد قبروں کا سراغ ملا ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت ایک ساتھ، ایک جیسی ان سات قبروں کی ہے جو روایات کے مطابق سات بیبیوں کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں بھکر کے گورنر ابو قاسم عرف نمکین خان کی قبر بھی ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لئے وقف کرا رکھا تھا۔یہ مقام ابوقاسم کو اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی یہ وصیت کر دی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں اور ان کے عزیز و اقارب کو بھی یہیں اسی قبرستان میں دفن کیا جائے۔ یہیں پر سات قبروں کے پہلو میں ایک شاندار بارہ دری بھی بنی ہوئی ہے جو حادثات زمانہ کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے اب زبوں حالی کی ایک داستان بن چکی ہے۔ یہ درگاہ یاآستانہ ، سکھر اور روہڑی کے درمیان موجود ایک قدیمی قبرستان میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے واقع ہے۔ اس قدیمی قبرستان سے سیکڑوں داستانیں اور روایات جڑی ہوئی ہیں۔ لیکن جو اہمیت اس قبرستان میں موجود '' ستھین جو آستان‘‘کے حصے میں آئی ہے وہ شاید ہی کسی اور تاریخی عمارت یا ورثے کو ملی ہو۔ ستھین جو آستان کی وجۂ شہرت دراصل ان سات بہنوں یا سات سہیلیوں کی قبریں ہیں جن کے بارے روایت ہے کہ یہاں سات پاکباز اور نیک لڑکیاں رہتی تھیں جن پر کبھی کسی مرد کی نظر نہیں پڑی تھی۔ بعض روایات میں بتایا جاتا ہے کہ ایک دن اچانک راجہ داہر کی ان پر نظر پڑ گئی ، چنانچہ اس نے ان ساتوں کو اپنے دربار میںطلب کر لیا۔ یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے رب سے اپنی عزت کی حفاظت کی دعا مانگی۔کہتے ہیں آناً فاناً زمین پھٹی اور وہ زمین میں دھنس گئیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سات بیبیوں کی قبریں ہیں۔ اس آستانے کے نیچے ایک بڑا تہہ خانہ بنایا گیا تھا جہاں ایک بڑے ہال سمیت چار کمرے ہیں، جہاں اکثر و بیشتر دور دراز سے آئے زائرین رہتے ہیں۔ ان قبروں کا طرز تعمیر بتاتا ہے کہ ان کی تعمیر اور آرائش و زیبائش مغلیہ دور میں کی گئی ہو گی جن میں مغلیہ دور کی طرز تعمیر جھلکتی صاف نظر آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ستھین جو آستان جہاں عقیدت مندوں کیلئے ایک روحانی مرکز کا درجہ اختیار کر چکا ہے وہیں یہ ایک تفریحی مقام کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ ستھین جو آستان میں سارا سال عقیدت مندوں اور منت ماننے والوں کا ہجوم رہتا ہے جو پنجاب سمیت سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اپنی من مرادوں کی تکمیل بالخصوص اولاد کی طالب بانجھ خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔ سیتھین جو آستان کا غار نما زیر زمین حصہ صرف خواتین کیلئے مختص ہے۔یہی بنیادی طور پر اس آستانے کا مرکزی حصہ ہے۔یہاں مردوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے ، چنانچہ خواتین کے ساتھ آئے مردوں کو اوپر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بے اولاد اور بانجھ خواتین کو یہاں مزار کے اندر ایک ہجرے میں ایک رسم ادا کرائی جاتی ہے جس میں بے اولاد خواتین کی کمر پر تالا باندھا جاتا ہے۔اس کے بعد بچوں کے لٹکتے جھولوں میں خواتین کو مختلف رنگوں کے دھاگے باندھنا ہوتے ہیں ۔ منت ماننے والی ان خواتیں کو ہر اسلامی مہینے کے پہلے ہفتے بلوایا جاتا ہے۔
گھڑسواری اور تیراندازی میں ان کی مہارت حیران کن تھی سلطنت برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت رہی ہے۔ یہ دنیا کے 26 فیصد حصے پر پھیلی لیکن یہ سلطنت بکھری ہوئی تھی اور اس کے بہت سے علاقے ایک دوسرے سے متصل نہیں تھے۔ ایک دوسرے سے متصل علاقوں پر مشتمل سب سے بڑی سلطنت منگولوں نے قائم کی۔ منگول سلطنت کا بانی مشہور فاتح چنگیز خان تھا۔ کسی بھی سلطنت کی فتوحات کے پس پشت مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل کارفرما ہوتے ہیں، لیکن اس میں عسکری طاقت اور حکمت عملی کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ آخر کیا سبب تھا کہ بہت سے خطوں کی افواج منگولوں کی یورش کا مقابلہ نہ کر پائیں؟منگول خانہ بدوش تھے اور ایشیا کے وسیع گھاس کے میدانوں میں رہتے تھے۔یہاں تیز ہوائیں چلتیں اور سرد موسم عموماً شدید ہوتا۔ منگولوں کا رہن سہن اپنے علاقے کے حالات سے مطابقت رکھتا تھا۔دیگر خانہ بدوشوں کی طرح وہ بھی مویشی پالتے تھے تاکہ اپنی غذائی ضروریات پوری کر سکیں۔ ان میں بھیڑ، بکریاں، اونٹ اور یاک شامل ہیں۔ پالتو جانوروں کے دودھ سے وہ دہی اور پنیروغیرہ بنا کر کھاتے اور ان جانوروں سے بنے گرم کپڑے انہیں سردی سے محفوظ رہنے میں مدد دیتے۔ منگول گوشت کو بھون کر کھانے کے بجائے ابال کر کھاتے تھے۔ سوکھا ہوا گوشت سفر کرنے والوں اور محاذجنگ میں شریک ہونے والوں کے ساتھ ہوتا، کیونکہ یہ خراب نہیں ہوتا تھا۔ منگول جانوروں کا کوئی حصہ ضائع نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ ہڈیوں کو ابال کر ان کا گودا کھایا جاتا تھا۔شکار کیلئے بعض ہنر چاہئیں تھے، یہ تھے گھڑسواری اور تیر اندازی۔ ان میں منگولوں کی مہارت حیران کن تھی۔ منگول بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی گھڑسواری اور تیر اندازی سکھا دی جاتی اور وہ جلد اس میں مشاق ہو جاتے۔ اس فن میں ایک روایت مزید نکھار لاتی اور اسی سے منگولوں کو جنگ اور اس کی حکمت عملی کی تربیت ملتی۔ منگول سردیوں میں کم از کم ایک ماہ کیلئے اور کبھی کبھار تین ماہ کیلئے اکٹھے شکار کھیلتے۔ یہ شکار بہت منظم انداز اور بڑے پیمانے پر کھیلا جاتا۔ منگول مردوں کی اکثریت اس میں حصہ لیتی۔ شکار کے اس طرز کو Nerge کہا جاتا، جس کیلئے متبادل لفظ جرگہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ ریت منگول فوج کی تربیت گاہ کا کام کرتی۔ اس سے شکار بھی ہاتھ آتا اور مورال بھی بلند ہوتا۔ جنگ میں مقام، تنظیم، ربط، وقت اور لڑنے کی استعداد سب چاہئیں، منگول ایک اجتماعی سرگرمی سے اسے پا لیتے۔ اس سرگرمی میں ہر ایک اپنے ذمے افعال سرانجام دیتا، کسی نے تیرچلانے ہوتے تو کسی نے تیر پہنچانے ہوتے، کوئی کھانے کا اہتمام کرتا تو کوئی خیمے لگاتا۔ شکار کیلئے کسی وسیع و عریض مقام کا تعین کیا جاتا جس کے گرد کم و بیش 130 کلومیٹر پر منگول ایک خاص ترتیب میں جمع ہوتے۔ سب سے بڑا اجتماع ''تومن‘‘ کہلاتا اور 10 ہزار پر مشتمل ہوتا، ان کے جھنڈے مختلف مقامات پر گاڑے ہوتے۔ سیکڑوں میل دور اختتام مقام کا تعین کر دیا جاتا۔ سربراہ کا اشارہ ملنے پر مسلح شرکاء آگے بڑھنے لگتے اور گھیرا تنگ کرتے جاتے۔ اس کے سامنے آنے والے جنگلی جانور بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگلے چند ہفتوں میں گھیرا تنگ ہوجاتا اور جانوروں کی تعداد بڑھ جاتی یوں اس وسیع اجتماع جو کسی فوج کی صورت ہوتا، کے حصے آگے بڑھ کر جنگلی جانوروں کے قریب آتے۔ اس طرح جانوروں کو مارنا آسان ہو جاتا۔ اس مقصد کیلئے گھڑسوار شفٹوں میں کام کرتے تھے۔ اگر کسی سے جانور نکل جاتا تو اسے سخت سزا دی جاتی۔ منگولوں کے گھوڑے اگرچہ چھوٹے ہوتے تھے لیکن سخت جان ہوتے اور ان کا سٹیمنا بھی اچھا ہوتا۔ لکڑی، بانس یا سینگ سے بنے ان کے تیر بہت مضبوط ہوتے۔ انہیںتیر کو نشانے پر پھینکنے کی خاص مہارت حاصل تھی۔ جب جانوروں کی نشان دہی ہو جاتی تو پہلا تیر منگولوں کاخان چلاتا۔ کسی دوسرے کے تیر چلانے کا مطلب اس کی موت ہو سکتا تھا۔ آخر میں کچھ جانوروں کو چھوڑ دیا جاتا تاکہ ان کی نسل قائم رہے۔ اس کے بعد9 دن تک جشن منایا جاتا۔ قبلائی خان کے دور میں مارکوپولو نے شانگڈو شہر کا دورہ کیا تھا۔ اس نے اپنی 1298ء میں منظرعام پر آنے والی کتاب ''دی ٹریولز‘‘ میں شکار کے اس طریقے کی تفصیل بیان کی ہے۔ شکار کی یہ طویل مشق اسی طرح ہوتی جس طرح منگول دشمن پر حملہ آور ہوتے۔ یہی حکمت عملی منگول جنگوں میں اپناتے تھے۔ اس میں تیز رفتار گھڑسواروں کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی۔ بعض اوقات گھڑسوار اتنا پھیل جاتے کہ پوری دشمن فوج کو گھیر لیتے۔ اس کے بعد جو نکلنے کی کوشش کرتا اس کا بے رحمی سے شکار کیا جاتا۔ منگول فوج کی تقسیم اور ترتیب کم و بیش شکار والی ہوتی۔ نظام میں سب سے نیچے ''اربان‘‘ ہوتے، یہ 10 جنگجوپر مشتمل ہوتا۔ 10 اربان سے ایک ''جاگون‘‘ بنتا جس میں 100 جنگجو ہوتے۔ 10 ''جاگون‘‘ میں ایک ہزار ہوتے اور ان سے منقان بنتا۔ ایک تومن 10 منقان پر مشتمل ہوتاجس میں 10 ہزار افراد ہوتے۔ ساری فوج تین حصوں میں تقسیم ہوتی۔ دایاں، بایاں اور مرکزی یا کلیدی حصہ۔ مارکوپولو اس بارے میں مزید تفصیل بتاتا ہے: جب تاتاری (منگول) شہزادہ جنگ کیلئے جاتا، وہ اپنے ایک لاکھ گھڑسوار لے جاتا۔ لیکن ہر 10، سو، ہزار اور 10 ہزار پر ایک آفیسر تعینات کرتاتاکہ اس کے احکامات صرف 10 افراد کو دینے کی ضرورت پیش آئے، ان 10 کو اگلے 10 کو ، اور اسی طرح کسی کو 10 سے زیادہ افراد کو احکامات دینے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ہر کوئی اپنے آفیسر کو جواب دہ ہوتا۔ نظم و ضبط کا یہ نظام شاندار تھاکیونکہ یہ اپنے سرداروں کے بہت فرمانبردار تھے۔ اگرچہ مارکوپولو نے فوجی تنظیم کے بارے میں قبلائی خان کے زمانے میں لکھا لیکن یہ وہی تنظیم تھی جو چنگیز خان کے دور سے چلی آ رہی تھی۔ منگولوں کی عسکری فتوحات میں ان کے اجتماعی شکارکی ریت کا عمل دخل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سڑکوں پر رہنے والے بچوں کا عالمی دنسڑکوں پر رہنے والے بچوں کا عالمی دن (International Day for Street Children) ہر سال 12 اپریل کو منایا جاتا ہے۔2011ء میں شروع ہونے والے اس دن کو منانے کا مقصدسڑکوں پر رہنے والے بچوں کے مسائل کو اجاگر کرنا،حکومتوں اور اداروں کو ان بچوں کے حقوق دلانے کیلئے توجہ دلانا اور دنیا بھر میں ایسے بچوں کو تعلیم، صحت، تحفظ اور ایک بہتر زندگی کا حق دلانے کی کوشش کرناہے۔'' سٹریٹ چلڈرن ‘‘انہیں کہا جاتا ہے جوبچے اپنے خاندانوں سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں، یاوہ جو گھروں کے باہر سڑکوں، پارکوں، اسٹیشنز یا فٹ پاتھوں پر وقت گزارتے ہیں۔دنیا بھر میں لاکھوں بچے سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یہ بچے جسمانی، ذہنی اور جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے پاس شناختی دستاویزات، تعلیم یا قانونی تحفظ نہیں ہوتا۔ یوری گاگرین نے خلا میں زمین کے گرد چکر لگایا1961ء میں آج کے روز سوویت خلا باز یوری گاگرین کو خلا کا سفر کرنے والے پہلے انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ ''ووستوک 1‘‘ مشن کا حصہ تھے جس نے زمین کے گرد ایک چکر لگایا۔ یہ دن اب دنیا بھر میں ''انٹرنیشنل ڈے آف ہیومن اسپیس فلائٹ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔انہیں سوویت یونین کے سب سے بڑے اعزاز''ہیرو آف دی سوویت یونین‘‘ سے نوازا گیا۔یوری گاگرین کا انتقال ایک تربیتی پرواز کے دوران 27 مارچ 1968ء کو ہوا، جب ان کا لڑاکا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ اس وقت وہ صرف 34 سال کے تھے۔400رنز، برائن نے عالمی ریکارڈ قائم کیا12 اپریل 2004 ء کو ویسٹ انڈیز کے عظیم بلے باز برائن چارلس لارا نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ سر انجام دیا۔لارا نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں 400 رنز ناٹ آؤٹ کی شاندار اننگز کھیلی۔یہ اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز تھی، اور یہ ریکارڈ آج بھی برقرار ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لارا نے اس سے پہلے بھی 1994ء میں 375 رنز بنا کر انفرادی اننگز کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا جو بعد میں آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن نے 2003 ء میں 380 رنز بنا کر توڑا۔لیکن پھر برائن لارا نے ایک سال بعد 2004ء میں اپنا ہی ریکارڈ واپس لے لیا اور 400 ناٹ آؤٹ کے ساتھ دنیا کو حیران کر دیا۔
اگر چہ پاکستان کو قدرت نے نمک کے بہت وسیع ذخائر سے نوازا ہے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک پاکستان نمک کے ان ذخائر کوٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کر سکا ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں بہت سے ملکوں سے پیچھے ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں 24 لاکھ ٹن سالانہ کے ساتھ دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے۔ اس کے مقابلے میں چین سالانہ 6 لاکھ کروڑ ٹن کی نمک کی پیداوار کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے پاکستان میں صنعتی شعبہ کمزور ہونے کے باعث بھی نمک سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔نمک کا تکنیکی نام سوڈیم کلورائیڈ (NaCl) ہے۔ بظاہر کم قیمت اور معمولی سمجھا جانے والا نمک در حقیقت قدرت کا انتہائی اہم معدنی تحفہ ہے جو کھانوں کو ذائقہ بخشنے کے علاوہ بہت سے صنعتوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں نمک کے 6 ارب سے زائد ذخائر موجود ہیں۔ ضلع جہلم میں کھیوڑہ کی نمک کی کان دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے پاکستان میں کھیوڑہ کے علاوہ نمک کی کانیں واڑچھا ضلع خوشاب، کالا باغ ضلع میانوالی اور بہار خیل ضلع کو ہاٹ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی نمک کی شناخت ''ہمالین سالٹ ‘‘کے نام سے ہے۔ اس کو ''پنک سالٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پایا جانے والا نمک 99 فیصد خالص ہے اس میں کیلشیم میگنیشیم ، زنک، آئرن اور کئی دوسرے منرلز پائے جاتے ہیں۔نمک کا سب سے اہم استعمال کھانوں کی تیاری میں ہوتا ہے جو نہ صرف کھانوں کو خوش ذائقہ بناتا ہے بلکہ جسمانی نظام اور صحت کو برقرار رکھنے میں میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نمک خلیوں کی کارکردگی اور فعالیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بطور الیکٹرولائٹ بھی بہت ضروری ہے نمک جسمانی توازن اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔ آئیوڈین والا نمک جسم میں آئیوڈین کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، جس سے تھائرائیڈ ہارمون بنتا رہتا ہے اور گلہر کی بیماری سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر نمک انسانی جسم کے افعال کے لیے اس قدراہم ہے کہ ڈائیریا کے مرض کی وجہ سے جسم میں نمکیات اور پانی کی کمی ہونے کی وجہ سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ نمک کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے کیونکہ نمک کی زیادتی ہائی بلڈ پر یشر اور دل کے امراض کی وجہ بن سکتی ہے۔نمک کا استعمال صرف کھانوں کی تیاری تک محدود نہیں۔ نمک بہت کسی کیمیائی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو صنعتی پیمانے پر کاسٹک سوڈا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا صابن اور سرف بنانے کے لئے انتہائی اہم جزو ہے۔ اس کے علاوہ اس کو کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دیگر صنعتی اشیاء تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا بنانے کے عمل سے ہی کلورین بھی پیدا ہوتی ہے۔ کلورین کو بڑے پیمانے پر پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا اور کلورین کے علاوہ بھی نمک کو کیمیکل انڈسٹری میں بہت وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ تقریباً آدھے سے زائد کیمیکلز کی تیاری میں کسی نہ کسی مرحلے پر نمک لازماً استعمال کرنا پڑتا ہے۔نمک کو پینٹ ، رنگ اور ڈائیاں بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گلاس، پولی ایسٹر ، ربڑ، پلاسٹک اور کپڑے کی صنعت میں بھی نمک استعمال کیا جاتا ہے۔ چمڑا بنانے کے کارخانوں میں بھی نمک کو جانوروں کی کھالوں کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صنعتیں جو ملکی معشیت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، نمک کے بغیر نہیں چل سکتیں۔صنعتوں سے باہر بھی نمک بہت سے اہم کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو تیل کے کنویں کی مٹی کو پائیدار بنانے اور کنویں کو گرنے سے بچانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نمک سٹرکوں پر جمی برف ہٹانے، کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دھاتیں صاف کرنے کے بھی کام آتا ہے۔ نمک کو فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں سیلائن سولیوشنز ، گولیاں اور آئنمنٹس بنانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نمک کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کرے۔ صنعتی شعبے کی ترقی کیلئے صنعت کاروں کو مراعات دی جائیں اور جن صنعتوں میں نمک استعمال ہوتا ہے ان کوٹیکس میں خصوصی چھوٹ دی جائے تا کہ پاکستانی اشیاء عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں اور ملک کو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہو۔ انہی اقدامات سے ممکن ہو سکے گا کہ پاکستان اللہ کے دیئے گئے نمک کے تحفے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔
حنان8سال کا بہت ہی پیارا اورسمجھداربچہ ہے۔اس کے پاپا جدہ میں رہتے ہیںجبکہ وہ ماما کے ساتھ اپنی نانو کے گھر میں رہتا ہے۔
بھوک سے اس کا بُراحال تھا۔رات کے ساتھ ساتھ باہر ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی تو وہ مارا جائے گا۔وہ کونوں کھدروں میں چھپتا چھپاتا کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جوں ہی ایک گلی کا موڑ مڑ کر وہ کھلی سڑک پر آیا،اسے ایک دیوار میں سوراخ نظر آیا۔وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہو گیا۔
باپ نے بیٹے سے کہا : ’’دیکھو عمران آج جو مہمان ہمارے ہاں آنے والا ہے، اس کی ناک کے متعلق کوئی سوال نہ کرنا‘‘۔
٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ ٭…سب سے زیادہ جاہل وہ ہے جو گناہ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی گناہ کرے۔