راہِ ہدایت
وہ سب بولے کہ ہم بڑے زورآور اورسخت جنگجو ہیں اورحکم آپ کے اختیارمیں ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے توجو حکم دیجئے گا (ہم حاضر ہیں)۔ (سورۃالنمل:آیت33)

ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ایرانی صدر، وزیر خارجہ کی نماز جنازہ آج ادا کی جائے گی


تہران: (دنیا نیوز) ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سمیت ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے والے اعلیٰ حکام کی نماز جنازہ آج ادا کی جائے گی، اعلیٰ شخصیات کی شہادت پر ایران میں 5 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔



اشتہار

تہران،اسلام آباد(دنیا نیوز، نامہ نگار، سٹاف رپورٹر، اپنے رپورٹر سے، مانیٹرنگ ڈیسک) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے، ہیلی کاپٹر کا ملبہ، جسد خاکی مل گئے، ملک میں پانچ روزہ سوگ، نماز جنازہ آج ادا کی جائے گی، نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ابراہیم رئیسی کی میت کو تہران لے جایا جائے گا، صدر رئیسی کو شمال مشرقی ایران میں ان کے آبائی شہر مشہد میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ محمد مخبر کو ملک کا عبوری صدر جبکہ علی باقری کنی کو قائم مقام وزیرِ خارجہ مقرر کر دیا گیا ہے۔

اسلام آباد(اپنے نامہ نگار سے، مانیٹرنگ ڈیسک، دنیا نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے شاعر احمد فرہاد کی گمشدگی سے متعلق کیس میں سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو آج طلب کرتے ہوئے سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی کے بیان پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

لاہور(سیاسی رپورٹر سے، دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی)پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے ہتک عزت بل 2024ئکو ایوان سے منظور کر الیا،اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔۔۔

اسلام آباد(نامہ نگار،اپنے رپورٹر سے،نیوز ایجنسیاں)ترک وزیر خارجہ حاقان فدان نے وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم اسحق ڈار سے ملاقاتیں کیں جن میں دو طرفہ تجارت 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کا اعادہ کیا گیا،دونوں ممالک میں دفاع سمیت دیگر شعبوں میں بھی تعاون جاری رہے گا، ملاقات کے دوران وزیرِاعظم نے دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات کے فروغ پر گہرے اطمینان کا اظہار کیا۔

متفرقات

بیش قیمت اشیائے خورونوش

بیش قیمت اشیائے خورونوش

روئے زمین پر قدرت نے جہاں انگنت مخلوقات پیدا کی ہیں، وہیں نباتات کی دنیا میں بھی کروڑوں اربوں پودے پیدا کئے ہیں۔ جیسے موجودہ سائنس ابھی تک اس روئے زمین کی مخلوق جیسے چرند، پرند، حشرات الاارض وغیرہ کے بارے ابھی بہت کم رسائی حاصل کر سکی ہے، اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ نباتات کی دنیا بھی اس قدر وسیع ہے کہ ابھی تک صحیح طور پر شاید اس کا دسواں حصہ بھی نہیں کھوجا جا سکا۔ نباتات کی دنیا کا انسان کی زندگی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ صدیوں سے یوں ہے کہ آکسیجن کے علاوہ یہ انسان کی خوراک اور ادویات کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ جہاں تک نباتات کی قیمت کا تعلق ہے اس کا تعین بھی ہماری روزمرہ زندگی میں بہت عجیب ہے، مثال کے طور پودینے کی ایک گٹھی جو اپنے اندر بہت سارے امراض کا علاج لئے ہوتی ہے، اس کی بازاری قیمت چند روپوں میں ہے لیکن اس روئے زمین پر بعض ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہیں جن کے ایک گرام کی قیمت ہماری کرنسی میں لاکھوں اور کروڑوں روپے ہے۔ ذیل میں ہم چند حیران کر دینے والی قیمتی جڑی بوٹیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ٹرفل زیر زمیں اُگنے والایہ پھل مشروم کی ایک نایاب نسل سے تعلق رکھتا ہے، اسی لئے اسے دنیا کا نایاب اور مہنگا ترین پھل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں کھانوں میں استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ٹرفل زیر زمیں چند مخصوص درختوں کی جڑوں میں ہی پرورش پاتا ہے۔ صحراؤں اور جنگلوں میں اُگنے والے اس پھل کو تلاش کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ سدھائے ہوئے شکاری کتے ہی سونگھ کر اس کو تلاش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جس کے بعد شکاری زمین کھود کر ٹرفل کو زمین سے کھود نکالتے ہیں۔ چونکہ یہ قدرتی طور پر اُگنے والا پھل ہے، اس لئے اپنی مخصوص آب و ہوا کے باعث دنیا کے چند ایک ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔ حیران کن حد تک اس کی قیمت سونے سے بھی زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بین الاقوامی منڈیوں میں اعلیٰ درجے ٹرفل کی فی کلو گرام قیمت 15 سے 20 لاکھ پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔''کراپ ڈیزیز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل ایگریکلچر ل ریسرچ سنٹر‘‘ کے سینئر سائنٹیفک آفیسر، ڈاکٹر ظفر اقبال نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ عام طور پر مشروم زمین کے اوپر نامیاتی مادے میں اُگتے ہیں لیکن ''ٹرفل‘‘ نامی یہ منفرد پودا زیر زمین پرورش پاتا ہے۔ عام مشروم نسل کے پودوں کے برعکس ٹرفلز جنگلوں میں جا بجا نہیں اُگتے بلکہ یہ چند مخصوص درختوں، جن میں بلوط ، چنار ، پائن وغیرہ شامل ہیں کی جڑوں کے قریب یا زیر زمین ان کی جڑوں کے ساتھ پرورش پاتے ہیں۔ٹرفل نامی یہ پودا، اینٹی آکسیڈنٹس کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور ایسے مرکبات پر مشتمل ہے جو آزاد ریڈیکلز سے لڑنے اور انسانی جسم کے خلیات کو آکسیڈینٹیو نقصانات سے بچانے میں بہترین مزاحمت کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اینٹی آکسیڈنٹس انسانی صحت میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں کیونکہ یہ دائمی طور پر کینسر، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے خطرات کو ممکنہ حد تک روکتے ہیں۔''کیویار‘‘ (Caviar) بحیرہ قزوین سے نکلنے والی اس کیویار کو دنیا کی سب سے مہنگی خوراک کا درجہ حاصل ہے۔ مچھلی کی اووری سے لئے گئے چھوٹے چھوٹے دانوں کی شکل کے ان انڈوں کو فارسی میں ''خاویار‘‘ کہتے ہیں۔ کیویار کی یہ نایاب قسم بیلوگا، سنہری الماس اور سٹرگن نسل کی مچھلیوں کے انڈوں سے ملتی ہے۔انہی نسل کی مچھلیوں کی قیمت سب سے زیادہ ہے جبکہ دیگر نسل کی مچھلیوں کی کیویار کی مانگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت چالیس لاکھ روپے فی کلو گرام ہے جبکہ دیگر دو اقسام کی قیمت دوسے چار لاکھ روپے فی کلوگرام تک ہے۔تاریخ کے اوراق میں ان کیویار کا ذکر ایران، آسٹریلیا اور روس کے بادشاہوں کی خوراک کے طور پر ملتا ہے۔ جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ لذت اور ذائقے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریوں کے علاج کے طور پر بھی استعمال ہوا کرتی تھی۔ بلیو فن ٹونا مچھلییہ دنیا کی نایاب مچھلیوں کی نسل میں سے ایک نسل ہے جو تیزی سے معدومیت کی طرف گامزن ہے۔ یہ دنیا بھر میں کھانے کے شائقین میں بے حد مقبول ہے۔ اس کا سب سے زیادہ استعمال جاپان کی دو مخصوص اور روایتی ڈشوں ''سوشی‘‘ اور ''ساشیمی‘‘ میں ہوتا ہے۔اب رفتہ رفتہ کم پیداوار کی وجہ سے اس کا استعمال صرف انتہائی مالدار طبقے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بعض حوالوں سے معلوم ہوا ہے کہ آج سے چند سال پہلے دنیا کی سب سے مہنگی بلیو فن ٹونا، ٹوکیو میں ایک نیلامی کے دوران تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ پاکستانی روپوں میں نیلام ہوئی تھی۔سمندر کے پانیوں میں پرورش پانے والی اس مچھلی کے گوشت کی فی کلو گرام قیمت دس لاکھ روپے کے برابر ہے۔خوردنی گھونسلہآپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ مشرقی ایشیاء کے ممالک کے کچھ پہاڑی علاقوں میں کچھ منفرد قسم کی چڑیاں پہاڑی ڈھلوانوں پر اپنے لعاب سے گھونسلے بناتی ہیں۔یہ گھونسلے ملائشیا ، تھائی لینڈ ، چین ، ہانگ کانگ اور ویت نام میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں کیونکہ ان ممالک میں ان گھونسلوں سے ایک منفرد قسم کا سوپ پچھلے کئی عشروں سے نہایت رغبت اور چاہت سے استعمال ہوتا آرہا ہے۔ لیکن ان گھونسلوں کو اکٹھا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف اس لئے ہے کہ خطرناک پہاڑی ڈھلوانوں پر چڑھنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ان ممالک میں سرخ گھونسلے دس لاکھ پاکستانی روپے اور سفید گھونسلے دو سے تین لاکھ روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں۔ کوپی لوواک کافی فلپائن اور انڈونیشیا میں پائے جانے والے کافی کے ان بیجوں سے بنی کافی کی دنیا بھر میں بہت مانگ ہے۔ جبکہ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کی اشرافیہ میں اس کی بہت طلب رہتی ہے۔ اس کافی کا حصول بھی انتہائی دلچسپ اور عجیب ہے۔مشرقی ایشیاء میں پایا جانے والے جانور ''لوواک‘‘کو کافی کے درخت کا پھل کھلایا جاتا ہے جس کے بعد اس جانور کے فضلے سے نکلنے والے کافی کے بیجوں کو یکجا کر لیا جاتا ہے۔عالمی مارکیٹ میں ان بیجوں کی فی کلوگرام قیمت تیس ہزار سے لے کر دو لاکھ روپے تک ہے ۔زعفران زعفران کچھ مخصوص پکوانوں کا لازمی جزو تصور ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ مختلف ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔یہ چند مخصوص آب وہوا کے علاقوں میں موسم خزاں میں صرف چند دن کیلئے اگتا ہے۔جس کے بعد یہ ہاتھ سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ایک پھول میں چند باریک تھوڑی سی ڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ پھولوں سے بمشکل ایک کلو گرام زعفران نکلتا ہے۔اس کی کم سے کم قیمت چالیس سے پچاس ہزار روپے فی کلوگرام ہوتی ہے جبکہ اعلی کوالٹی زعفران کی قیمت دو اڑھائی لاکھ روپے فی کلو گرام کے قریب ہوتی ہے۔ موز چیز موز ،بارہ سنگھے کی ماند جنگلوں میں رہنے والا ایک جانور ہے جس کا آبائی علاقہ سویڈن ہے۔ اس کے دودھ سے تیارکردہ سفید چیز (پنیر ) دنیا بھر میں اپنے منفرد ذائقے اور لذت کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں کھانوں کے رسیا اسکی تلاش میں رہتے ہیں۔ چونکہ اس جانور کی پیدائش کا علاقہ محدود ہے اور پھر اس کے دودھ کا حصول بھی آسان نہیں اسلئے عالمی مارکیٹ میں " موز چیز " کی فی کلو گرام قیمت ایک لاکھ روپے سے دولاکھ روپے کے درمیان رہتی ہے۔مٹسوتی کے مشروم مٹسوتی کے مشروم کی فی کلو قیمت پانچ لاکھ روپوں کے برابر ہے۔یہ مشروم کی ایک نایاب قسم ہے جو جاپان ، امریکہ کے علاوہ چند یورپی ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔ بیش قیمت ہونے کے باعث یہ اشرافیہ کے استعمال تک ہی محدود ہے۔  

شکرگزار بنیں!

شکرگزار بنیں!

انسان کو اللہ تعالیٰ نے بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان میں سے کئی نعمتیں تو اتنی عظیم ہیں کہ اگر کوئی ایک نعمت ہم سے واپس لے لی جائے تو ہم اس نعمت کا نعم البدل کہیں سے نہیں لا سکتے۔ ہم اپنے اعضاء پہ ہی غور کر لیں کہ یہ ا للہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہیں۔ خدا نخواستہ کسی حادثے میں کوئی ایک نعمت بھی واپس لے لی جائے تو اس وقت انسان کو یہ سوچ آتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت تھی۔ میں زندگی بھر استعمال کرتا رہا، اس نعمت کے حوالے سے تو کبھی اپنے رب کا شکر ادا کیا ہی نہیں تھا۔اللہ جل شانہ کی جس قدر نعمتیں ہر آن اور ہر دم انسان پر ہوتی ہیں، ان کا شکر ادا کرنا اور ان کا حق بجا لانا بھی انسان کے ذمے ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ شکر انسان کیسے ادا کرے؟ کیا ہم دن میں ''شکر الحمد للہ‘‘ کی تسبیح پڑھ لیں، اگر تسبیح پڑھ رہے ہیں تو یہ بھی اچھی بات ہے لیکن حقیقی شکر تب ہی ہو گا جب آپ دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کریں گے، ہر نعمت کے قدر دان بن جائیں گے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ''اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہیں زیادہ عطا کروں گا‘‘۔ نبی کریم ﷺفرماتے ہیں:کہ قیامت کے دن کہا جائے گا، حمد کرنے والے کھڑے ہو جائیں، لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہو جائے گا، ان کیلئے جھنڈا لگایا جائے گا اور وہ تمام لوگ جنت میں جائیں گے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ! حمد کرنے والے کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو لوگ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو ہر دکھ سکھ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا بہت بڑی بات ہے، ظاہر ہے انسان کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے انسان کی زندگی میں غم بھی آتے ہیں، امتحان اور آزمائشوں کے طوفان بھی آتے ہیں۔ ہر حالت میں جو اپنے رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے وہ ہی حقیقی قدردان ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے تو شکر ادا کرنے والا خرچ کرتا ہے، بانٹا شروع کرتا ہے، دوسروں کا احساس کرتا ہے اور وہ اپنے عمل سے انسانیت کیلئے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ مال جمع کرنے والا کبھی شکر گزار بندہ نہیں بن سکتا، کیونکہ شکر گزاری مال کو اکٹھا کرنے میں نہیں بلکہ سخاوت میں ہے۔ جب بھی انسان رب تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کو ایک روحانی طاقت محسوس ہوتی ہے۔ زندگی کے روزمرہ کاموں میں، اپنے گھر، محلے،آفس میں ہر انسان کا شکریہ ادا کریں۔ ہم بڑے بڑے کام کروا لیتے ہیں لیکن شکریہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں، آپ دو دن مسلسل ایک ہی بندے سے اُجرت کے ساتھ کوئی چھوٹا سا کام کروائیں، ایک دن شکریہ ادا نہ کریں اور دوسرے دن شکریہ ادا کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے الفاظ سے سامنے والے شخص کا چہرہ جگمگا اٹھے گا اور آپ کو دیر تک ایسا سکون محسوس ہو گا کہ آپ کا دل و دماغ روشن ہو جائے گا۔ یاد رکھیں اگر آپ میں لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کی عادت نہیں تو آپ اپنے مالک کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتے،کیونکہ حدیث رسول ﷺ ہے ''جو لوگوں کاشکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا‘‘ اس لئے ہمیں ہر وقت، ہر حال میں، ہر نعمت کا ہر شخص کا، شکر ادا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہم اللہ کا شکر ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ شکر گزاری، شکر ادا کرنا اور اس کا اظہار کرنا بظاہر چھوٹا سا عمل ہے لیکن یہ روح کے ساتھ ساتھ انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ بارہا ریسرچ سے یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ شکر گزار ہونا: آپ کی خوشیوں کے ذائقے کو بڑھاتا ہے، بہتر اور پرسکون نیند کی وجہ بنتا ہے، جسم کو طاقت اور اعتماد فراہم کرتا ہے۔آج عہد کر کے شکر گزاری کی زندگی شروع کیجیے، مندرجہ بالا فوائد کے علاوہ آپ خالق اور مخلوق دونوں میں محبوب ہو جائیں گے۔ آپ کے ساتھ ہر شخص تعلق بنانے کی کوشش کرے گا۔ ہر شخص آپ کی قدر کریگا۔ دنیا و آخرت کی تمام کامیابیوں کی راہ آپ کیلئے ہموار ہو جائے گی۔

یادرفتگاں:اے حمید:باکمال موسیقار

یادرفتگاں:اے حمید:باکمال موسیقار

30 سالہ فلمی کریئر میں 70 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دینے اور تقریباً 450 گیت کمپوز کرنے والے اے حمید پاکستانی فلمی موسیقی کا ایک بہت بڑا نام تھے۔ وہ کمال کے موسیقار تھے کہ ان کے بہت کم گیت ایسے ہیں جو مقبول نہ ہوئے ہوں، ان کے سپرہٹ گیتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود اردو فلموں کے سکہ بند موسیقار تھے اور پورے فلمی کریئر میں صرف 8 پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔اے حمید 1933ء میں امرتسر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ پورا نام شیخ عبدالحمید تھا۔ انہوں نے پاکستان میں اپنا فلمی کریئر 1957ء میں فلم ''انجام‘‘ سے شروع کیا۔ 1960ء میں انہوں نے فلم ''رات کے راہی‘‘ کیلئے شاندار موسیقی مرتب کی۔ اس فلم میں زبیدہ خانم کا گایا ہوا ایک گیت ''کیا ہوا دل پہ ستم، تم نہ سمجھو گے بلم‘‘، انتہائی مقبول ہوا۔ اس گیت کو فیاض ہاشمی جیسے بے بدل گیت نگار نے لکھا تھا۔ ''رات کے راہی‘‘ کی کامیابی میں بلاشبہ اے حمید کی موسیقی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 1960ء میں ان کی مشہور زمانہ فلم ''سہیلی‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ ایس ایم یوسف کی اس فلم نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ اس فلم میں اے حمید کا فن اوج کمال کو پہنچ گیا۔ یہ گیت تو بہت زیادہ مقبول ہوا ''کہیں دو دل جو مل جاتے‘‘ پھر 1962ء میں ''اولاد‘‘ کے گیتوں نے بھی ان کے فنی قدو قامت میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد ان کی یکے بعد دیگرے ریلیز ہونے والی فلموں کے نغمات مقبولیت کی آخری حدوں کو چھونے لگے۔ آشیانہ (1964ء)، توبہ (1965ء) اور بہن بھائی (1968ء) کے نغمات بھی زبان زد عام ہوئے۔ ''توبہ‘‘ میں منیر حسین اور ان کے ساتھیوں کی آواز میں گائی ہوئی یہ قوالی آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے ''نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے‘‘۔ اس کے بعد 1971ء میں ریاض شاہد کی فلم ''یہ امن‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ اس فلم کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ اس کا خاصا حصہ سنسر کی نذر ہو گیا تھا۔ یہ یحییٰ خان کا دور تھا۔ ریاض شاہد کو اپنی فلم کے سنسر ہونے کا بے پناہ دکھ تھا۔ ان کی فلم ''امن‘‘ کا نام بھی بدل کر ''یہ امن‘‘ رکھ دیا گیا۔ ریاض شاہد کے قریبی حلقوں کے مطابق یہ دکھ ریاض شاہد کو موت کی وادی میں لے گیا۔''یہ امن‘‘ اس کے باوجود سپرہٹ ثابت ہوئی۔ حیرت کی بات ہے کہ 1969ء میں ریاض شاہد نے اپنی شاہکار فلم ''زرقا‘‘ کی موسیقی کیلئے رشید عطرے کو منتخب کیا تھا لیکن ''یہ امن‘‘ کی موسیقی کیلئے انہوں نے اے حمید کو ترجیح دی۔ یہ فلم کشمیر کی جنگِ آزادی پر بنائی گئی تھی۔ اے حمید نے اس فلم کے گیتوں کو لازوال دھنیں عطا کیں۔ مہدی حسن اور نورجہاں کا یہ گیت تو آج بھی لاثانی گیت کہلایا جاتا ہے ''ظلم رہے اور امن بھی ہو‘ کیا ممکن ہے تم ہی کہو‘‘۔ 1972ء میں شریف نیئر کی فلم ''دوستی‘‘ نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ اس فلم کے گیت قتیل شفائی، کلیم عثمانی اور تنویر نقوی کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ اس فلم کے یہ گیت آج بھی اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ''یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں‘‘ اور ''چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘۔ اے حمید نے اس فلم کا جو سنگیت دیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 1974ء میں انہوں نے فلم ''سماج‘‘ کیلئے شاندار موسیقی دی۔ اس فلم کے یہ گیت شاہکار قرار پائے ''چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں‘‘ اور ''یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا‘‘۔ 1976ء میں حسن طارق کی فلم ''ثریا بھوپالی‘‘ کی بے مثال موسیقی بھی اے حمید کی تھی۔ اس میں ناہید اختر کے گائے ہوئے گیت آج بھی دل کے تاروں کو چھو لیتے ہیں۔ 1977ء میں انہوں نے فلم ''بھروسہ‘‘ کی موسیقی ترتیب دی اور اس فلم کے نغمات بھی اپنی مثال آپ تھے۔ 1976ء میں انہوں نے پنجابی فلم ''سوہنی مہینوال‘‘ کیلئے دلکش موسیقی مرتب کی۔ سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے پنجابی نغمات کو اے حمید نے اپنی سحر انگیز موسیقی کا جو لباس پہنایا وہ آج بھی فلمی موسیقی کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ اے حمید پیانو بجانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ اے حمید نے پونا فلم انسٹی ٹیوٹ میں موسیقی کے شعبے میں داخلہ لیا جہاں نامور موسیقار سی رام چندر اور استاد محمد علی نے انہیں تربیت دی تھی۔ اے حمید کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہیں فیاض ہاشمی، قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور حبیب جالب جسے نغمہ نگار ملے۔ ان کی یادگار فلموں میں ''رات کے راہی، اولاد، سہیلی، پیغام، یہ امن، دوستی، سوہنی مہینوال، شریک حیات، ثریا بھوپالی، آواز، انگارے، بھروسہ، توبہ، بہن بھائی‘‘ اور دوسری کئی فلمیں شامل ہیں۔ اے حمید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے پاکستانی فلموں کی سب سے مقبول فلمی قوالی ''نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ، ہم کہاں جاتے‘‘کمپوز کی تھی۔ اس سے قبل ہدایتکار ایس ایم یوسف کی اردو فلم ''اولاد‘‘ میں بھی اسی ٹیم کی گائی ہوئی قوالی ''حق ، لا الہ لا اللہ ، فرما دیا کملی والے ؐ نے‘‘بڑی مقبول ہوئی تھی۔اس کے علاوہ ہدایتکار اقبال یوسف کی اردو فلم ''عیدمبارک‘‘ کی محفل میلاد کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔ اے حمید کی بیشتر فلموں میں ایسے روحانی گیت ، قوالیاں وغیرہ عام ہوتی تھیں۔20 مئی 1991ء کو اے حمید کا راولپنڈی میں انتقال ہو گیا۔چند دلچسپ حقائق٭... پہلی فلم کی طرح موسیقار اے حمید کی آخری فلم ''ڈسکو دیوانے‘‘ کے ہدایتکار بھی جعفربخاری ہی تھے۔٭...اے حمید نے ہدایتکار ایس ایم یوسف کی بیشتر فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔٭...ایک سو سے زائد گیت نغمہ نگار فیاض ہاشمی سے لکھوائے۔٭...زیادہ تر گیت میڈم نورجہاں ، مالا بیگم، مہدی حسن اور منیر حسین سے گوائے۔٭...گلوکار اے نیئر کو دریافت کیا اور اردو فلم ''بہشت ‘‘(1974ء) میں روبینہ بدر کے ساتھ پہلا دوگانا ''یونہی دن کٹ جائیں ، یونہی شام ڈھل جائے‘‘گوایا تھا۔٭...پاپ سنگر نازیہ حسن کو پہلی بار ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم ''سنگدل‘‘ (1982ء) میں گوایا تھا۔ مقبول عام گیت٭کیا ہوا دل پہ ستم ، تم نہ سمجھو گے بلم(رات کے راہی)٭ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے(سہیلی)٭مکھڑے پہ سہرا ڈالے ، آجا او آنے والے (سہیلی)٭کہیں دو دل جو مل جاتے، بگڑتا کیا زمانے کا (سہیلی)٭نام لے لے کے تیرا ہم تو جئیں جائیں گے (فلم اولاد)٭نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا، ہم کہاں جاتے(توبہ)٭چٹھی جرا سیاں جی کے نام لکھ دے(دوستی)٭یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں (دوستی)٭کس نام سے پکاروں، کیا نام ہے تمہارا(غرناطہ)٭ظلم رہے اور امن بھی ہو ، کیا ممکن ہے(یہ امن)٭اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں(انگارے)  

ڈیلاس:اہم امریکی شہر

ڈیلاس:اہم امریکی شہر

ڈیلاس کا شہر ریاست ٹیکساس میں تیسرا اور پورے امریکہ میں 9واں بڑا شہر ہے۔ 1841ء میں یہ شہر معرض وجود میں آیا اورفروری 1856ء میں اسے شہر کا درجہ دیا گیا۔ اس وقت ڈیلاس کی معیشت کا انحصار تجارت، بنکنگ، ٹیلی کمیونیکیشن، کمپیوٹر ٹیکنالوجی، توانائی، کپاس اور ذرائع رسل و رسائل پر ہے کیونکہ یہ شہرٹیکساس کے شمالی حصے میں آباد ہے۔ اس شہرکی سمندر تک رسائی نہیں، ریاستی بندر گاہ کے شہرہیوسٹن سے زمینی فاصلہ 241 میل ہے اور دونوں شہروں کے درمیان فضائی راستہ کے علاوہ زمینی رابطہ کیلئے ایک بڑی قومی شاہراہ ''آئی فور ٹی فائیو‘‘ (I-45) نہایت اہم رول ادا کرتی ہے۔ڈیلاس کا شہرہموار سطح پر واقع ہے اور اس کی سطح سمندر سے بلندی 550 فٹ ہے۔ دنیا کے کئی دوسرے شہروں کی طرح ڈیلاس بھی دریائے ٹرینیٹی (Trinity) کے کنارے آباد ہے، گرمیوں میں ٹمپریچر زیادہ سے زیادہ 32/33ڈگری سینٹی گریڈ اور سردیوں میں کم سے کم 1/3سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ بارش کا تناسب35انچ سالانہ ہے۔ٹرانسپورٹامریکہ کے تقریباً درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے ڈیلاس ایک اہم شہر ہے۔ ریل، سڑک اور فضائی راستوں کے ذریعے ملک کے ہر خطہ سے منسلک ہے۔ ڈیلاس شہر سے ملک کی سات اہم بین الریاستی شاہراہیں اور درجن سے زیادہ دوسری سڑکیں گزرتی ہیں۔ جن پر امریکہ کے ہر شہرسے Greyhound Busکمپنی کی لگژری اور تیز رفتار بسیں دن رات رواں دواں رہتی ہیں۔ گرے ہاونڈ ٹرانسپورٹ کمپنی کی سروس امریکہ کے ہر شہر میں موجود ہے اورواقعی یہ ایک لاجواب سروس ہے۔ گرے ہانڈ کا ہیڈ کوارٹر اسی شہر ڈیلاس میں ہے اور اس کی سروس کا دائرہ کار امریکہ کے علاوہ میکسیکو اور کینیڈا تک پھیلا ہوا ہے۔DART (Dallas Area Rapid Transit)Dartایک ادارہ ہے۔ جو ڈیلاس شہر اور مضافات میں مقامی طور پر شہریوں کوٹرانسپورٹ کی سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ یہ ادارہ 1983ء سے عوامی ذمہ داریاں نہایت خوش اسلوبی سے نبھا رہا ہے۔ اور اس کا دائرہ کار شہر اور قرب وجوار کے مضافات میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ 72میل کا ٹریک تین لائنوں، ٹریڈ لائن، بلیو لائن اور گرین لائن پر مشتمل ہے۔ اس Light Railمیں روزانہ تقریباً 58ہزار مسافر سفر کرتے ہیں جبکہ چوتھی اورنج لائن بھی زیر تعمیر ہے جس کے مکمل ہونے سے موجود ریلوے ٹریک93میل تک وسیع ہو جائے گا۔ری یونین ٹاورڈیلاس شہر کے مرکز میں تعمیر کیا ہوا یہ ٹاور 561فٹ بلند ہے۔ اس ٹاور کو 1978ء میں مکمل کیا گیا۔ اس ٹاورکے اوپر کے حصہ میں تین فلور ہیں۔ جنہیں ریسٹورانٹ، کنونشن سینٹر اور خصوصی تقریبات کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ یہ تینوں فلور چاروں طرف گھومتے ہیں۔ اور 55منٹ میں ایک چکر مکمل ہوتا ہے۔ یعنی آپ اپنی کھانے کی میز پر بیٹھے بٹھائے کھانے سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ شہرکے ارد گرد نظارہ کر سکتے ہیں۔ بلکہ قریبی شہر فورٹ ورتھ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مقامی لوگ عرفو عام میں اس ٹاور کو فائیو سکسٹی(560)ٹاور بھی کہتے ہیں۔ اس کے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر آپ اپنی شام کو رومانٹک بنا سکتے ہیں۔ بلکہ بزنس ڈنر اور سالگرہ کی تقریبات کو بھی یاد گار بنا سکتے ہیں۔ کھانے میں Tunaفش کے علاوہ ایشین طرز کا چٹ پٹا کھانا بھی دستیاب ہے۔ کھانے کا بل عموماً 30سے 50ڈالر فی کس ہوتا ہے۔ یہ ری یونین ٹاور کئی ایوارڈ بھی حاصل کر چکا ہے۔ اس ٹاور پر رات کے وقت سیکڑوں رنگ برنگے قمقمے جلتے بجھتے رہتے ہیں جس سے ٹاور کے خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ٹاور کے پاس ہی ڈیلاس کا سٹی ہال واقع ہے۔بنک آف امریکہ اس کے علاوہ ڈیلاس میں بنک آف امریکہ کی عمارت 921 فٹ بلند ہے۔ یہ عمارت 1985ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی 72منزلیں ہیں یہ عمارت ریاست ٹیکساس میں تیسری اور امریکہ میں 21ویںفلک بوس عمارت ہے۔ جب کہ دنیا کی بلند عمارتوں میں اس کا شمار58نمبر پر ہے۔کائوبوائز سٹیڈیمکائوبوائز سٹیڈیم کی چھت کو باوقت ضرورت اوپر سے کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے۔ اس سٹیڈیم کا رقبہ135ایکڑ ہے اور چھت کی بلندی 292فٹ ہے۔ اور اس سٹیڈیم کو پانچ میل دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سٹیڈیم نہ صرف ریاست ٹیکساس بلکہ پورے امریکہ کی پسندیدہ فٹ بال ٹیم ''Cowhoys‘‘کا ایک طرح کا گھر ہے اور یہ عظیم سٹیڈیم اسی ٹیم کے نام سے منسوب ہے۔ پورے امریکہ میں چوٹی کے تین کھیل فٹ بال ، بیس بال اور باسکٹ بال ایسے کھیل ہیں جن کو امریکی عوام دل وجان کی طرح پسند کرتے ہیں۔یہ کائوبوائز سٹیڈیم عرصہ تین سال کی تعمیر کے بعد مئی 2009ء میں مکمل ہوا۔ یہ سٹیڈیم دو جڑواں شہر ڈیلاس اور فورٹ ورتھ کے درمیان قدرت ایک چھوٹے شہر آرلنگٹن میں واقع ہے اس سٹیڈیم میں نشستوں کی تعداد ایک لاکھ 10ہزار ہے جو کہ ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق یہ دنیا کا سب سے بڑا مسقت سٹیڈیم ہے، جس کی چھت درمیان میں بغیر کسی ستون کے بنائی گئی ہے۔ اس سٹیڈیم میں ایک بہت بڑی ٹی وی سکرین بھی نصب کی گئی ہے جس کی لمبائی چوڑائی160X72فٹ ہے جو کہ دنیا میں سب سے بڑی ٹی وی سکرین شمار ہوتی ہے۔ ٹیکساس والوں کو یہ فخر ہے کہ ان کی ریاست کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ''The biggest Thing Always come Fron Texas‘‘واقعی جب یہ سٹیڈیم مکمل ہوا تو یہ جملہ بالکل سچ ثابت ہوا۔ٹاور آف امریکہریاست ٹیکساس کے دوسرے بڑے شہر سین انٹوینو میں ایک خوبصورت ٹاور تعمیر کیا گیا ہے جس کا نام ہی ٹاور آف امریکہ ہے یہ ٹاور پورے شہر کی رنگینیوں کو جذب کئے ہوئے ہے۔ عرف عام میں ٹاور آف امریکہ کو صرف ''ٹاور‘‘ ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ ٹاور ڈیلاس میں تعمیر شدہ ری یونین ٹاور سے 61فٹ بلند ہے جبکہ ٹاور آف امریکہ کی بلندی 622 فٹ ہے اور اس کی کل 952سیڑھیاں ہیں۔ اوپر کے حصہ میں ریسٹورنٹ کے عرشہ پر 350لوگ ایک وقت میں ارد گرد کا نظارہ کر سکتے ہیں جبکہ ریسٹورنٹ میں 500لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اس ٹاور کی بلندی کے پیش نظر اس کو '' چشم ٹیکساس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پورے ٹیکساس میں بلند ترین ٹاور ہے۔ 1968ء میں ایک بین الاقوامی نمائش کے سلسلہ میں یہ ٹاور تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ نمائش سین انٹونیو شہر کی ڈھائی صد سالہ (250)تقریبات کے سلسلہ میں منعقد کی گئی تھی۔ لیکن اس ٹاور کو بنے ہوئے بھی اب 43سال ہو چکے ہیں اس ٹاور کے برقی زینے 800فٹ فی منٹ کی رفتار سے گرائونڈ سے اوپر تک 43سیکنڈ میں پہنچ جاتے ہیں۔ اوپر ریسٹورنٹ کی جگہ کا رقبہ 10150مربع فٹ ہے جب کہ ریسٹورنٹ کے اوپر صد گاہ کا رقبہ 8800مربع فٹ ہے اور وہ شافٹ جس کے گرد یہ ریسٹورنٹ گھومتا ہے اس کا قطر45فٹ ہے۔ 

پاکستان کا مشن ورلڈ کپ!

پاکستان کا مشن ورلڈ کپ!

آئی سی سی مینز ٹی 20ورلڈکپ شروع ہونے میں صرف 13روز باقی رہ گئے ہیں اور اس دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف چار میچز پر مشتمل انٹرنیشنل ٹی 20 سیریز بھی کھیلنی ہے۔ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں مشن ورلڈکپ سے قبل گرین شرٹس کو 3 انٹرنیشنل سیریز کھیلنے کا موقع ملا، ہوم گرائونڈ پر نیوزی لینڈ کیخلاف پانچ میچوں پر مشتمل ٹی 20 سیریز کھیلی۔

بہادر گلفام اور مون پری

بہادر گلفام اور مون پری

گلفام کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔وہ بہت ہی رحمدل اور بہادر لڑکا تھا اور ہمہ وقت دوسروں کی مدد کرنے کیلئے تیار رہتا تھا۔

چھپائی کی ایجاد

چھپائی کی ایجاد

چھپائی کی ایجاد سے پہلے کتابیں ایک بہت ہی بیش قیمت اور کم نظر آنے والی شے تھیں۔تب کتاب کو ہاتھوں سے لکھا جاتا تھا اور ایک کتاب کو مکمل کرنے میں مہینوں لگ جاتے تھے،لیکن آج چھپائی کی مدد سے ہم صرف چند گھنٹوں میں ہزاروں کتابیں چھاپ سکتے ہیں۔

ذرامسکرائیے

ذرامسکرائیے

پولیس’’ تمہیں کل صبح پانچ بجے پھانسی دی جائے گی‘‘ سردار: ’’ہا… ہا… ہا… ہا…‘‘ پولیس: ’’ ہنس کیوں رہے ہو‘‘؟سردار : ’’ میں تو اٹھتا ہی صبح نو بجے ہوں‘‘۔٭٭٭

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا
2023-09-16

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت
2023-09-02

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے
2023-08-16

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز