راہِ ہدایت
(ہم نے کہا )یہ ہماری بخشش ہے چاہو توکسی پر احسان کرو یا چاہوتو رکھ چھوڑو(تم سے )کچھ حساب نہیں ہے ۔ (سورۃص:آیت39)

بشام: چینی باشندوں پر حملے میں ملوث کالعدم ٹی ٹی پی کے 4 دہشتگرد گرفتار


پشاور: (دنیانیوز) بشام میں چینی باشندوں کے قافلے پر حملے کی تحقیقات میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے جہاں سی ٹی ڈی نے حملے میں ملوث 4 دہشتگرد گرفتار کرلیے ۔



اشتہار

اسلام آباد (دنیا نیوز ،نامہ نگار ، اے پی پی ، مانیٹرنگ ڈیسک )وزیر اعظم شہبازشریف کی منظوری سے وزیر خارجہ اسحق ڈار پاکستان کے نائب وزیر اعظم مقرر کر دئیے گئے ، کابینہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

لاہور(اے پی پی)وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے لاہور میں 24 گھنٹے کام کرنے والے نادرا سنٹر شملہ پہاڑی کا دورہ کیا،نادرا سنٹر میں بہت زیادہ رش تھا۔ شہریوں نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے سامنے شکایات کے انبار لگا دئیے ۔

لاہور (کورٹ رپورٹر،نیوز ایجنسیاں)لاہور میں منعقدہ دوروزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے آخری روز مقررین نے خطاب میں کہا ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی سے ہی ملک آگے بڑھے گا،آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی کا اعتراف ہے ۔

لاہور،اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،این این آئی) مسلم لیگ ن کے رہنما ووفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ شہریار آفریدی کے بیان نے پی ٹی آئی کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا۔

متفرقات

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے سیکھنے سکھانے کے عمل کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال اور تعلیم سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔یونیسکو کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024)کے مطابق الگورتھم کے ذریعے چلائے جانے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم صنفی حوالے سے منفی تصورات کو پھیلاتے اور خاص طور پر لڑکیوں کی ترقی کو منفی طور سے متاثر کرتے ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم کی تیاری میں اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کو تعلیم اور کریئر کے حوالے سے لڑکیوں کی خواہشات اور امکانات کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔ انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کا مسئلہ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024 ) رپورٹ کے مطابق الگورتھم کے ذریعے خاص طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کیلئے غیرصحتمند طرزعمل یا غیر حقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہ کے بارے میں سوچ کو نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہ دکھاتا ہے۔ دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح متواتر توجہ کے طالب تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔سائبرہراسگی اور ڈیپ فیکرپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو آن لائن ہراساں کئے جانے کا سامنا لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) میں شامل ممالک سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 12 سے 15 سال تک کی لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہو چکا ہے۔ یہ اطلاع دینے والے لڑکیوں کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصویروں، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور کمرہ ہائے جماعت میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں بہت سے ممالک کی طالبات نے بتایا کہ انہیں آن لائن تصاویر یا ویڈیوز سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتیں۔اس جائزے کے نتائج سے تعلیم بشمول میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے گزشتہ نومبر میں ڈیجیٹل سماج کے انتظام سے متعلق یونیسکو کی رہنمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل سماجی رابطوں کو بہتر اور باضابطہ بنانے کی ضرورت بھی سامنے آتی ہے۔خواتین کی ترقی میں ڈیجیٹل رکاوٹ''گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ‘‘ (Global education monitoring report) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے منفی صنفی تصورات لڑکیوں کیلئے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان شعبوں پر زیادہ تر مردوں کا اجارہ ہے، جس کے باعث لڑکیاں ایسے ڈیجیٹل ذرائع کی تخلیق کے مواقع سے محروم رہتی ہیں جو ان دقیانوسی تصورات کے خاتمے میں مدد دے سکتے ہیں۔یونیسکو کے مطابق 10 برس سے دنیا بھر میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مضامین میں گریجویٹ خواتین کی شرح 35 فیصد پر برقرار رہی۔ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ رائج صنفی تعصبات خواتین کو ان شعبہ جات میں کریئر بنانے سے روکتے ہیں اور اس طرح ٹیکنالوجی کے شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔دنیا بھر میں سائنس، انجینئرنگ اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے متعلق نوکریوں میں خواتین کا تناسب 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کو دیکھا جائے تو ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں ان کی تعداد 26 فیصد، انجینئرنگ میں 15 فیصد اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں 12 فیصد ہے۔ اسی طرح نئی ایجادات کے حقوق ملکیت کی درخواست دینے والوں میں خواتین کا تناسب صرف 17 فیصد ہے۔پالیسی سازی کی ضرورتاس جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلی میں مردوں کا کردار نمایاں ہے۔ اگرچہ 68 فیصد ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کی ترقی کیلئے پالیسیاں بنا رکھی ہیں لیکن ان میںآدھی کے قریب لڑکیوں اور خواتین کیلئے مددگار نہیں۔یونیسکو کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں کامیابی کی نمایاں مثالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس کیلئے سوشل میڈیا سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔ لڑکیوں کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ معاشروں کی ڈیجیٹل تبدیلی میں خواتین کا مساوی کردار یقینی بنانے اور ٹیکنالوجی کی تیاری کیلئے ایسا کئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز2024ء‘‘ (Technology on her terms 2024ء‘‘ رپورٹ کے مطابق تعلیم میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق ڈیزائن، رسائی، تدریس اور مہارتوں میں عدم مساوات کو دور کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر لڑکی ان مواقع سے مستفید ہو سکے جو اس طرح کی ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فوائد کو ان طریقوں سے استعمال کیا جانا چاہیے جو واضح طور پر صنفی تفریق کو دور کریں۔رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کیلئے ڈیجیٹل ٹولز کی ملکیت اور انہیں استعمال کرنے اورٹیکنالوجی میں کریئر کو آگے بڑھانے کیلئے ایک معاون ماحول کو یقینی بنانا ایک ایسی ڈیجیٹل تبدیلی کا باعث بنے گا جو تعلیم اور اس سے آگے صنفی معیار کو فروغ دے گا اور اس میں اضافی رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گا۔  

وادی ڈومیل اور رینبو جھیل

وادی ڈومیل اور رینبو جھیل

استور سے چھ گھنٹے کی جیپ مسافت گوری کوٹ سے ہوتے ہوئے چلم چوکی اور برزل پاس کی 13500 فٹ بلندی کے بعد ہمیں منی مرگ لے گئی۔ اور منی مرگ کی وادی ڈومیل میں رینبو جھیل کے لمس سے آشنا کیا۔ اس پاک سرزمین پر کہیں وادی ڈومیل بھی ہے ؟ہے بھی یا نہیں کہ ایسی وادیاں صرف کہانیوں میں ہی ہوتی ہیں جہاں بلند درختوں سے کھیلتی ہوائیں پہاڑی درے سے گزرتی ہیں تو جنات کی طرح بے شمار کنکر اڑاتی جاتی ہیں۔ انگنت ندیاں گمنام چشموں سے پھوٹ کر پہلے جوان ہوتی ہیں اور پھر بے نام دریاؤں کا رزق بن جاتی ہیں۔کائنات کی سانس کی طرح دریا بھی بہتے چلے جاتے ہیں۔ چاند راتوں میں آسمان کی طرف اٹھنے کی ناکام کوشش میں ہلکان ہوتے ہیں اور پھر کسی اور دریا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان دریاؤں کا ایک ایک قطرہ وقت کی اکائی کی طرح زندگی بھر ایک مقام سے صرف ایک ہی بار گزرتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔وادیٔ ڈومیل ہے بھی یا نہیں؟ یہی دیکھنے کیلئے کتنی بے شمار وادیوں سے گزرے اور کتنے سورج ہمارے سامنے پہلے تانبے کے تھال بنے اور پھر برف کے پاتال میں اتر گئے۔۔ سفر بہر حال جاری رہا۔ ڈومیل سے پہلے پرستان میں داخل ہونے جیسی مشکلات کئی ندیوں اور سفید جہانوں کی صورت میں جھیلنی پڑیں۔ برزل کے سفید معبد کو عبور کیا تو یقین ہوا کہ اس کے پار جو کچھ بھی ہے وہ قدرت کا ایسا عجوبہ ہے جس سے ڈومیل کے حسن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارا مقصد بھی سفر کرنا تھا۔ منزل کی جستجو میں تمام کشش تھی۔ ڈومیل کا ہونا یا نہ ہونا اہم نہیں تھا ، اس لئے ہم آگے بڑھتے چلے گئے۔دو جیپوں پر مشتمل ہمارا قافلہ منی مرگ سے نکل کر سبز قالین بچھے فرش والے رستوں کے بیچ بنی پختہ راہداری پر چل نکلا۔ قدم قدم حیرت تھی، حسن تھا، فطرت تھی۔ درخت آسمان کو چھونے کی کوشش میں نیم رقصاں تھے اور ہوا میں نمی تھی۔ ڈومیل نالے کے اس پار بلندی تھی۔ ڈھلوان سطح پر جو پھول تھے ان کا کوئی نام نہ تھا ، خود رو پھولوں کا کوئی نام ہوتا بھی نہیں۔ منی مرگ سے ڈومیل جاتے ہوئے پھر ایک رکاوٹ آ گئی۔ ایک ندی دیوسائی کے بلند میدانوں سے یا منی مرگ کی آبشاروں سے ادھر آ نکلی تھی اور ڈومیل نالے میں خود کشی کئے جاتی تھی۔ ڈومیل نالے میں ضم ہونے سے پہلے وہ ہمارا راستہ بھی بہا لے گئی تھی۔ ہم رک گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اک جہان ہمارے ساتھ رک گیا۔ شام سے پہلے کچھ سیاح واپس منی مرگ چلے گئے اور کچھ منتظر تھے مگر ہم ہر قیمت پر رینبو جھیل تک جانا چاہتے تھے۔ راستہ کاٹتے پانی کی شدت تو کم نہ ہوئی مگر جیپیں نکل گئیں۔ہمارے اطراف میں جنگل تھا، ندیاں تھیں اور ڈوبتے سورج کی شکست کھاتی تپش تھی۔ پھر ہم ایک فوجی علاقے میں داخل ہوئے۔ خوش آمدید ڈومیل ، والے بورڈ کے ساتھ بہت سارے تعارفی تختے اور استقبالی جملے نمایاں تھے۔ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر سفید اور نیم سرخ رنگ کا چھڑکاؤ اس پورے علاقے کو سرکاری رعب عطا کرتا تھا۔یہ وادی لائن آف کنٹرول پر واقع ہے، جس پر سفر کرنے والے سری نگر کشمیر اور گلگت تک، براستہ استور اپنا سفر کرتے تھے۔ ڈومیل میں فوجی چھاؤنی اور چند دفاتر ہیں جن کا مقصد وطن عزیز کی حفاظت کیلئے چوکس رہنا ہے۔ ہم جب ڈومیل کی آخری ندی پر ایستادہ پل عبور کر رہے تھے تو حیرتوں کا جہان کھلتا جا رہا تھا۔ شام سے کچھ پہلے کا منظر ، ہوا میں نمی، درختوں کی بھیگی خوشبو اور پس منظر سے اٹھتی آبشاروں کی مدھر آواز، وادی ڈومیل کو ہماری یادداشت میں امر کرتی جاتی تھی۔ ہم برزل پاس کے برفیلے جہانوں کو پیچھے چھوڑ کر جس حسن کا لمس لینے آئے تھے وہ اس قابل تھا کہ اس کیلئے ایسی مشکلات جھیلی جائیں۔ سامنے ایک راستہ رینبو جھیل کی طرف جاتا تھا۔ پارکنگ کے ساتھ یادگار شہدا تعمیر کی گئی تھی۔ حوالدار لالک جان شہید اور کیپٹن کمال شیر خان شہید کی تعارفی تختیاں نصب تھیں اور 80 برگیڈ 2016 کی افتتاحی پلیٹ بھی بہت اہتمام سے بنائی گئی تھی۔ ہم جھیل کی طرف جانے لگے تو پاک فوج کے ایک جوان نے شائستہ لہجے میں فرمایا کہ ‘‘ اندھیرا ہونے سے پہلے واپس چلے جائیے گا ، رات کو جنگلی جانور حملہ آور ہو سکتے ہیں ‘‘۔ہم ہمالیہ رینج میں وادیٔ ڈومیل کی بارہ ہزار تین سو پچاسی فٹ بلند رینبو جھیل کے کنارے پر کھڑے تھے اور نیلگوں سبزی مائل رنگ والی یہ گول جھیل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ کچھ لوگ اس جھیل کو مصنوعی جھیل کا الزام دے کر حاسدین فطرت میں شمار ہوتے ہیں مگر رینبو لیک کہیں سے بھی مصنوعی نہ تھی۔ اس میں جو پانی تھے وہ کسی ٹیوب ویل سے بھر کر نہیں لائے تھے۔ جھیل کے اطراف میں جو دیواریں اور بند تھے وہ ہمالیہ کے پتھروں کے تھے۔ ایک طرف سے داخل ہونے والا پانی دوسری جانب ایک نالے کی نذر ہوتا تھا جو اس جھیل کو زندہ لیک کی گواہی دیتا تھا۔ اگر کچھ مصنوعی تھا تو وہ کیفے تھا اور بیٹھنے کیلئے اوپن ایریا تھا۔ رینبو جھیل قدرتی حسن کا منبع تھی۔ ہم نے اس جھیل کے کنوارے پانی کو چھوا تو ایک لمحے میں سر سے پاؤں تک سردی کی لہر دوڑ گئی۔جھیل کا طواف مکمل کیا اور وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔   

29اپریل رقص کا عالمی دن

29اپریل رقص کا عالمی دن

آج سے کئی ہزار سال قبل اس خطے میں آباد ، موہن جو دڑو کے شہری بھی رقص کے شوقین تھے جس کا ثبوت کھدائی میں برآمد ہونے والا رقاصہ کا ایک کانسی کا مجسمہ ہے۔ بعض قوموں کے نزدیک رقص ایک دینی فریضہ تھا بلکہ اب بھی ہے ۔اس کا ایک محرک ''روحانی جذبہ‘‘ بھی ہے ۔ ہمارے ہاں یہ صوفیاء میں ''وجد‘‘ کی شکل میں ملتا ہے۔پوری دنیا میں درجنوں اقسام کے رقص ہیں۔ ہمارے ملک میں کلاسیکی اور لوک رقص کا ایک خاص مقام ہے ۔ حقیقت میں دیگر بہت سے فنون کی طرح '' اصل رقص‘‘ خاتمہ کے قریب ہے اور رقاص (جو رقص کر رہے ہیں وہ اصل میں) اس کی اس حالت پر نوحہ کناں ہیں۔ہماری فلموں خاص کر پاکستان ا ور بھارت کی فلموں میں رقص(ڈانس) کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔دیگر ملکوں میں ڈانس یا گانے کے بغیر فلم بن سکتی ہے لیکن یہاں کامیاب ہونا مشکل ہے ۔بلکہ موسیقی ،رقص فلموں کی کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔ اب جو پاکستانی فلموں میں رقص ہو رہا ہے وہ ہماری تہذیب اور ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ اسے رقص کہنا ہی نہیں چائیے ۔یہ کوئی بے ہنگم سی چیز ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔صرف بے حیائی کا فروغ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔پاکستانی معاشرے میں اگرچہ رقص کو اتنی پذیرائی نہیں مل سکی ۔(حالانکہ رقص کے نام پر مجروں میں جو بے ہودگی پائی جاتی ہے اس سے کون واقف نہیں ۔ رقص کو پاکستان میں مقبولیت نہ ملنے کے اسباب میں شائد سب سے بڑا سبب بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوںذلیل ہوتی عوام، دفتروں، سڑکوں، پٹرول پمپوںپر ''حالت رقص ‘‘ میں ہی ہیں۔ رہنما بدل بدل کر عوام،جلسے جلوس میں،کبھی انقلاب،کبھی جمہوریت،کبھی آمریت، کبھی خوشحال اور کبھی نیا پاکستان بنانے کیلئے ''محو رقص ‘‘ ہیں۔ حبیب جالب کے بقول!تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھیرقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے رقص کا عالمی دن29اپریل 1982ء کو انٹرنیشنل ڈانس کمیٹی آف دی انٹرنیشنل تھیٹر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پہلی بار منایا گیا تھا۔ بعدازاںیونیسکو نے اس کی تائید کی ۔اب یہ دنیا بھر میں ہر سال29اپریل کو بھر پور طریقے سے منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد مختلف قوموں کے علاقائی ،ثقافتی سرمائے (رقص ) کو محفوظ کرنا ہے کیونکہ ہر ملک میں رقص کے طریقے الگ الگ ہیں۔رقص مختلف قسم کی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے میں مدد بھی دیتا ہے ۔ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا ہے ۔رقص کو اعضاء کی شاعری بھی کہا جاتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رقص تو پوری کائنات میں ہے ۔''ہم چلتے ہیں، دوڑتے ہیں ، مختلف کام کرتے ہیں تو اس میں ایک ردھم ہوتا ہے ، ہوائیں چلتی ہیں اور پیڑ پودے اس پر جھومتے ہیں تو یہ سب ایک طرح کا رقص ہی تو ہے‘‘۔ پاکستان میں ہر صوبے میں کئی کئی اقسام کے لوک رقص مقبول ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔پنجاب کے لوک رقص میں، بھنگڑا، لڈی، سمی، گدا شامل ہیں ۔بھنگڑایہ پاکستان بھر میں عام رقص ہے جس کی ابتدا پنجاب کے خطے سے شروع ہوئی اور یہ اب ملک کے مقبول ترین لوک رقصوں میں سے ایک ہے۔لڈی پاکستان بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کیا جانے والا رقص ہے۔یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا لوک رقص ہے ۔سمی پوٹھوہاری خطے سے شروع ہونے والا یہ لوک رقص بنیادی طور پر پنجاب کی قبائلی برادریوں کا روایتی ڈانس ہے۔ گدایہ بھنگڑے کی طرح انتہائی پرجوش رقص ہے، رقص کرنے والا عام طور پر تالیوں کی آواز کے ساتھ تیز ہوتا چلا جاتا ہے۔بلوچستان کے لوک رقص میںلیوا، چاپ، جھومرشامل ہے۔لیوا نامی رقص عام طور پر شادی بیاہ کے موقع پر لوگوں کی خوشی کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔چاپ یہ بھی شادی بیاہ کے موقع پر کیا جانے والا لوک رقص ہے۔ اس میں ایک قدم آگے بڑھا کر پیچھے کیا جاتا ہے ۔ جھومرکو سرائیکی رقص بھی مانا جاتا ہے اور بلوچستان میں بھی بہت عام ہے ۔خیبر پختونخوا کے لوک رقص میں اٹن ،خٹک ،چترالی ڈانس قابل ذکر ہیں۔اٹن یہ ایسا لوک رقص ہے جو افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں عام ہے ۔عام طور پر ایک ہی دھن پر یہ رقص 5 سے25 منٹ تک جاری رہتا ہے۔ خٹک ڈانس تلواروں کے ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے کیا جانے والا یہ ڈانس مقبول ترین ہے ۔چترالی ڈانس یہ خیبرپختونخوا کے ساتھ گلگت بلتستان میں کیا جاتا ہے اور یہ کچھ لوگوں کے گروپ میں کیا جاتا ہے ، جس میں سے ہر ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس رقص کا مظاہرہ کرتا ہے ۔سندھ کے لوک رقص، دھمال اور ہو جمالو ہیں۔ دھمال یہ عام طور پر صوفی بزرگوں کے مزارات یا درگاہ پر کیا جانے والا رقص ہے ۔جو انتہائی مستی کے عالم میں کیا جاتا ہے ۔ہو جمالویہ سندھ کا مشہور ترین لوک رقص ہے ، درحقیقت ہو جمالو ایک بہت پرانا گیت بھی ہے۔

شہنشاہ میجی کا مقبرہ

شہنشاہ میجی کا مقبرہ

جاپان کے طاقتور شہنشاہ میجی کا مقبرہ ٹوکیو شہر کے وسط میں ایک پارک میں بنایا گیا ہے۔ 175 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے اس پارک میں جاپانیوں نے اپنے محبوب شہنشاہ سے قربت اور اُنسیت کی مناسبت سے 365 اقسام کے سوالاکھ پودے لگائے جو اب تن آور درخت بن چکے ہیں۔مزار کا داخلی دروازہ چالیس فٹ بلند ہے جو پندرہ سو سال پرانے صنوبر کے درخت کی لکڑی سے بنایا گیا ہے۔ شہنشاہ اور اُس کی ملکہ کا مقبرہ نہایت سادگی کا مظہر ہے۔ مزار میں داخل ہونے سے قبل زائرین ایک مخصوص تالاب میں ہاتھ اور منہ دھوتے ہیں۔ مقبرہ کے اندر جا کر دو دفعہ رکوع کی حالت میں جھکتے ہیںاور دُعا مانگتے ہیں۔شہنشاہ میجی جاپان کے قدیم شنتو مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے جولائی 1912ء میں وفات پائی، یہ مقبرہ 1915ء میں بننا شروع ہوا اور 1921ء میں مکمل ہوا۔ یہ مقبرہ اس باغ میں بنایا گیا ہے جس میں شہنشاہ میجی اور اُس کی ملکہ سیر کرنے آیا کرتے تھے۔ مقبرے کے دو حصے ہیں،ایک میں میوزیم بنایا گیا ہے۔ وہاںشہنشاہ اور اس کی ملکہ کی ذاتی استعمال کی اشیاء رکھی گئی ہیں اور دوسرے حصے میں بنائی گئی پکچر گیلری میں شہنشاہ کی زندگی کے بارے میں 80 پینٹنگ اورتصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ شہنشاہ کی عالمی لیڈروں سے ملاقاتوں کی تصاویر بھی یہیںرکھی گئی ہیں۔ امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن صدر بارک اوبامہ کے دور میں جب پہلی دفعہ جاپان آئی تو جاپانی راہنمائوں سے ملاقات سے قبل جاپانی قوم سے قربت کے اظہار اور اُن کے کلچر کا احترام کرتے ہوئے شہنشاہ میجی کے مزارپر حاضری دی۔ ہیلری کلنٹن کے اس عمل کا مقصد جنگ عظیم دوم کے اختتام پر پیدا ہونے والی دوریوں کوکم کرنا تھا۔ جنوری 2010 ء میں جرمن وزیر خارجہ نے اپنے دورے کا اختتام شہنشاہ میجی کے مقبرہ پر حاضری سے کیا تھا۔ شہنشاہ میجی 1852ء میں اُس وقت کے شہنشاہ کومی (KOMEI ) کے ہاں پیدا ہوا، والد کے انتقال کے بعد فروری 1867ء میں پرنس میجی صرف پندرہ برس کی عمر میںجاپان کا شہنشاہ بن گیا۔ میجی کے دور میں جاپان ایک جاگیرداری نظام سے نکل کر دُنیا کی بڑی طاقت بن کر اُبھرا۔ اہل مغرب کو چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ملک جاپان سے شناسائی ہوئی اور شہنشاہ میجی نے اپنے 45 سالہ دورِ شہنشاہیت میں جاپان کو فرش سے عرش تک پہنچا دیا۔ اُسی طاقت کی بدولت جاپان نے جنگ عظیم دوم میں نہ صرف آنکھیں دکھائیں بلکہ تمام اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور اُن کو تگنی کا ناچ نچایا۔ مجبوراً اپنے دفاع کی خاطر امریکہ نے جاپان کو ایٹم بم کا نشانہ بنایا۔

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی 20 سیریز:ناتجربہ کار کیویز  نے شاہینوں  کا پول کھول دیا

پاکستان،نیوزی لینڈ ٹی 20 سیریز:ناتجربہ کار کیویز نے شاہینوں کا پول کھول دیا

امریکہ اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والے آئی سی سی’’ٹی 20 ورلڈ کپ 2024ء‘‘ کے آغاز میں صرف 34دن باقی رہ گئے ہیں لیکن پاکستان اس عالمی ایونٹ کیلئے اپنی قومی کرکٹ ٹیم کے حتمی سکواڈ کا انتخاب ہی نہیں کرسکا ہے اور تاحال تجربات کاسلسلہ جاری ہے۔

با با ناظر اور بونے

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا
2023-09-16

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت
2023-09-02

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے
2023-08-16

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز