راہِ ہدایت
صدقات تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں جن کی تالیف قلوب (دل جوئی) منظور ہے۔ (سورۃ التوبۃ آیت نمبر 60)

آئی ایم ایف 30 محکموں کے ساتھ کارکردگی بہتر بنانے کیلئے مذاکرات کرے گا


اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مشن 30 محکموں کے ساتھ کارکردگی بہتر بنانے کیلئے مذاکرات کرے گا۔


اشتہار

راولپنڈی(خصوصی نیوز رپورٹر)چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ کسی کو بلوچستان کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ، ادارے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے قانون پر سختی سے عمل درآمد کرینگے ، کسی قسم کی نرمی اور کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا،عزم استحکام پر تیز اور مؤثر عملدرآمد کیا جائے ۔

گڑھی خدا بخش (مانیٹرنگ ڈیسک )چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے دریائے سندھ پر نئی نہروں کا منصوبہ مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ وفاقی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں پر مشاورت نہ کی تو بجٹ میں ووٹ نہیں دیں گے ۔

لاہور(سٹاف رپورٹر ، دنیانیوز) وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے پنجاب میں کم از کم اجرت کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والے اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا ۔

اسلام آباد (خصوصی نیوز رپورٹر ، دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک ، نیوزایجنسیاں)وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی پولیس کسی افغان مہاجر کو زبردستی نہیں نکالے گی۔

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)امیرِ جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں زیادہ ریلیف ملنا چاہیے تھا، 7اپریل کو مشاورت کے بعد ایک لائحہ عمل کا اعلان کروں گا۔

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر رہنما فاروق ستار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں وزیرِاعظم نے بجلی کے نرخوں میں 12 سے 17 فیصد کمی کا اعلان کیا جو عوام کیلئے ایک بڑا ریلیف ہے ۔

لاہور(کورٹ رپورٹر)لاہور ہائیکورٹ نے پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے کریک ڈاؤن کو ضروری قرار دیتے ہوئے پنجاب حکومت کو پھرواٹر ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز د ے دی۔

ملتان( لیڈی رپورٹر ) پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ حروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگارا کا نجی دورہ ملتان ،صوبائی سینئر نائب صدر الحاج محمد اشرف قریشی سے خصوصی ملاقات ۔اس موقع پر اہم شخصیات اور خلفا موجود تھے۔

متفرقات

یادرفتگاں: ایک عظیم قوال غلام فرید صابری

یادرفتگاں: ایک عظیم قوال غلام فرید صابری

غلام فرید صابری پاکستان کے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال تھے، جنہوں نے قوالی کے فن کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ وہ اپنی جادوئی آواز، وجدانی انداز اور منفرد طرزِ گائیکی کی بدولت صوفیانہ موسیقی میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔''تاجدارِ حرم‘‘ جیسی متعدد معروف قوالیوں سے لوگوں کو جھومنے پر مجبور کر دینے والے معروف قوال غلام فرید صابری کو دنیا سے گزرے آج31 برس بیت گئے ہیں۔غلام فرید صابری نہ صرف پاکستان کے مقبول ترین قوال تھے بلکہ دنیا بھر میں قوالی کے کروڑوں چاہنے والوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔وہ 1930ء میں ہندوستان کے علاقے روہتک میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک قوال گھرانے سے تھا، جہاں صدیوں سے قوالی کا فن نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ ان کے والد عنایت حسین صابری بھی قوال تھے، جنہوں نے غلام فرید کو بچپن ہی سے اس فن کی تربیت دی۔قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی آگیا۔ان کا پہلا البم 1958ء میں ریلیز ہوا، جس کی قوالی ''میرا کوئی نہیں تیرے سوا‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ وہ اپنے بھائی مقبول صابری کے ساتھ مل کر قوالی گایا کرتے تھے، ان کی جوڑی صابری بردران کے نام سے مشہور ہوئی۔70ء اور 80ء کی دہائی ان کے عروج کا سنہری دور تھا، اسی زمانے میں انھوں نے ''بھر دو جھولی میری یا محمد‘‘ جیسی قوالی گا کر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوا لیا۔1975ء میں گائی قوالی ''تاجدار حرم‘‘ نے ان کی شہرت کو دوام بخشا ۔ ایک دور میں ان کے آڈیو کیسٹس کی ریکارڈ فروخت ہوتی تھی۔ انہوں نے قوالی کے صوفیانہ رنگ کو جدید موسیقی کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور اپنی پرجوش آواز کے ذریعے سامعین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔صابری برادران نے قوالی میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا اور اس فن کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں متعارف کروایا۔ ان کی قوالیوں کو سن کر لوگ وجد میں آجاتے اور روحانی سرور محسوس کرتے۔غلام فرید صابری کی قوالیوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بے حد پذیرائی ملی۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ، بھارت اور کئی دیگر ممالک میں اپنی پرفارمنس کے ذریعے قوالی کی خوشبو بکھیر دی۔انہوں نے فلموں کیلئے بھی قوالیاں ریکارڈ کروائیں جن فلموں میں ان کی قوالیاں شامل کی گئیں ان میں ''عشق حبیب، چاند سورج، الزام، بن بادل برسات، سچائی‘‘ شامل ہیں۔ ان کی مقبول فلمی قوالیوں میں ''محبت کرنے والوں‘‘ اور'' آفتاب رسالت‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔اردو کے علاوہ پنجابی، سرائیکی اور سندھی زبان میں بھی انہوں نے قوالیاں گائیں۔انہیں کئی بڑے ایوارڈز سے نوازا گیا۔ غلام فرید صابری نے قوالی کو ایک نئی جہت دی اور ان کا اندازِ گائیکی آج بھی کئی نئے قوال اپنا رہے ہیں۔ ان کے بیٹے امجد فرید صابری نے بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قوالی میں شہرت حاصل کی، مگر بدقسمتی سے وہ بھی جوانی میں شہید کر دیے گئے۔5 اپریل 1994ء کو کراچی میں غلام فرید صابری کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ خالق حقیقی سے جاملے لیکن ان کا فن آج بھی زندہ ہے۔ ان کی قوالیاں دنیا بھر میں صوفیانہ موسیقی کے شائقین کے دلوں میں جگہ بنا چکی ہیں۔ ان کی یاد ہمیشہ عقیدت مندوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔ ان کا انداز، ان کی عقیدت اور ان کی آواز ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔مشہور قوالیاں٭...تاجدارِ حرم٭...بھر دو جھولی میری یا محمد٭...مریضِ محبت اْنہی کا فسانہ٭...خواجہ کی دیوانی٭...میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا٭...بالے بالے نی سوہنیا٭...محبت کرنے والوہم محبت اس کو کہتے ہیں٭...آئے ہیں تیرے در پہ تو...اعزازاتصابری بردران نے اپنے کریئر میں بیشمار نیشنل اور انٹرنیشنل ایوارڈز اور اعزازات اپنے نام کئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔٭...1978ء میں صدر پاکستان نے غلام فرید صابری کے پورے گروپ کو ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا تھا۔٭...1981ء میں امریکی حکومت کی طرف سے صابری برادران (غلام فرید صابری اور مقبول صابری) کو ''سپرٹ آف ڈیٹرائٹ ایوارڈ‘‘ ملا تھا۔٭... 1977ء میں نظام الدین اولیاء کے مزار کی انتظامیہ نے انہیں ''بلبل پاک و ہند‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔٭...1983ء میں انہیں فرانسیسی حکومت نے اپنے اعلیٰ ترین اعزاز ''چارلس ڈی گائولے ایوارڈ‘‘ دیا۔٭...آکسفورڈ یونیورسٹی نے صابری برادرز کو علامہ اقبالؒ کا کلام ''شکوہ جواب شکوہ‘‘ پڑھنے پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ 

امریکہ کیسے آزادہوا؟

امریکہ کیسے آزادہوا؟

امریکیوں کی جدوجہد تاریخ کا حصہ بن چکی ہےامریکہ کا اعلانِ آزادی چار جولائی 1776ء کو امریکی کانگریس نے جاری کیا اور اس کے تحت امریکہ کی 13 نوآبادیوں نے برطانیہ سے سیاسی تعلقات منقطع کر دیے۔ اپنے آپ کو ایک آزاد قوم اعلان کرنے کے بعد امریکہ اس قابل ہو گیا کہ وہ سرکاری طور پر فرانسیسی حکومت سے اتحاد کر لے اور برطانیہ کے خلاف فرانس سے امداد حاصل کرے۔ 1760ء کی دہائی اور 1770ء کے ابتدائی برسوں میں شمالی امریکہ کے برطانیہ کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ اس کا تعلق ٹیکس کے نظام اور سرحدی پالیسی سے تھا۔ بار بار احتجاج کیا گیا لیکن برطانوی پالیسیوں کو تبدیل نہ کیا جا سکا بلکہ ہوا یوں کہ بوسٹن کی بندرگاہ بند ہوگئی اور امریکہ کی ایک ریاست میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ نوآبادی حکومتوں نے کانگریس کو وفود بھیجے جنہوں نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ برطانوی اشیاء کا بائیکاٹ کرے۔ جب برطانوی فوجوں اور امریکہ کی نوآبادیوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تو پھر کانگریس نے مقامی گروپوں کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ برطانوی اشیاء کے بائیکاٹ کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ دوسرا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ کے خلاف مزاحمت کیلئے رابطوں کو مضبوط بنایا جائے۔ برطانوی افسروں کو اپنی نو آبادیوں میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور ان کے احکامات کو چیلنج کیا جا رہا تھا۔ مزاحمت مقامی حکومتیں کر رہی تھیں لیکن کچھ علاقوں میں ایسے عناصر موجود تھے جو برطانوی حکومت کے ساتھ وفاداری کا اظہار کر رہے تھے۔ ان تبدیلیوں کے باوجود ان نوآبادیوں کے رہنماؤں کو امید تھی کہ برطانوی حکومت کے ساتھ مصالحت کا راستہ نکل آئے گا لیکن کانگریس کے انقلابی ارکان کے علاوہ تمام اعلانِ آزادی کے مخالف تھے۔ تاہم 1775ء کے آخر میں خط و کتابت کی خفیہ کمیٹی کے رکن بینجمن فرینکلن نے فرانسیسی ایجنٹوں اور دیگر ہمدرد یورپی ملکوں کو اشارہ دیا کہ نوآبادیاں آہستہ آہستہ آزادی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ فرینکلن کو یہ امید بھی تھی کہ وہ فرانس کو امریکہ کی مدد کیلئے قائل کر لے گا۔ اگر فرانسیسی رہنماؤں نے امریکہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر آزادی ضروری ہو جائے گی۔ یہ امید بھی کی جا رہی تھی کہ اگر برطانویوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ امریکہ کو آزادی دینے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ امریکی نوآبادیوں کے لوگ اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنا بہرحال آسان نہیں۔ 1775-76ء کے موسم سرما میں کانگریس کے ارکان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ برطانیہ سے مصالحت کا کوئی امکان نہیں اور ان کے پاس آزادی کا اعلان کرنے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ بس ایکشن پلان کی ضرورت ہے۔ جب 22 دسمبر 1775ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے امریکی نوآبادیوں کے ساتھ تجارت پر پابندی لگائی تو کانگریس نے 1776ء میں نو آبادیوں کی بندرگاہیں کھول دیں۔ یہ امریکی فیصلے کا کرارا جواب تھا۔ یہ برطانیہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کیلئے اہم اقدام تھا اور امریکہ اس اقدام کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ نوآبادیوں کی مدد تھامس بین کے پمفلٹ ''کامن سینس‘‘ کے جنوری کے شمارے نے کی۔ اس پمفلٹ نے امریکہ کی آزادی کی پرزور وکالت کی۔ پمفلٹ کو نو آبادیوں میں بڑے پیمانے پر تقسیم کیا گیا۔ فروری 1776ء تک نوآبادیوں کے رہنما بیرونی ممالک سے اتحاد کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ انہوں نے ''جدید معاہدہ‘‘ کا مسودہ تیار کرنا شروع کر دیا۔ یہ رہنما چاہتے تھے کہ آزادی کے حصول کیلئے انہیں کانگریس کی بھرپور امداد ملنی چاہیے اور اس امداد کو یقینی بنایا جائے۔ 7 جون 1776ء کو رچرڈ ہنری نے کانگریس میں ایک تحریک پیش کی۔ یہ تحریک آزدی کا اعلان کرنے کے بارے میں تھی۔ کانگریس کو اس حقیقت کا بھی ادراک تھا کہ کچھ نوآبادیاں ابھی تک اس پر مکمل تیار نہیں ہیں۔ کانگریس نے اعلان آزادی کا مسودہ تیار کرنے کیلئے ایک کمیٹی قائم کی اور یہ کام تھامس جیفرسن کے سپرد کر دیا۔ بینجمن فرینکلن اور جان ایڈمز نے جیفرسن کے مسودے کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اس کی اصل شکل کو محفوظ کر لیا، لیکن اُن چیزوں کو روک لیا جن کی وجہ سے کوئی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا یا کسی شک کی گنجائش پیدا ہو سکتی تھی۔ کمیٹی نے حتمی مسودہ 28 جون 1776ء کو کانگریس میں پیش کیا جس نے 4 جولائی کو اعلانِ آزدی کا حتمی مسودہ منظور کر لیا۔ برطانوی حکومت نے اعلانِ آزادی کو مسترد کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ برطانوی حکمرانوں نے پراپیگنڈا کے ماہر افراد سے کہا کہ وہ اس اعلانِ آزادی کی خامیاں اور نقائص سامنے لائیں اور نوآبادیوں کے رہنماؤں کی شکایات کی تردید کریں۔ اس اعلانِ آزادی نے برطانیہ کی حزبِ اختلاف کو تقسیم کر دیا۔ ایک گروپ اس اعلانِ آزادی کی مخالفت پر کمر بستہ تھا لیکن آئر لینڈ میں اس کے بہت سے حامی موجود تھے۔ ہالینڈ نے 1782ء میں امریکہ کی آزادی کو تسلیم کر لیا۔ اگرچہ 1779ء میں سپین برطانیہ کے خلاف جنگ میں شریک ہوا تھا لیکن اس نے امریکہ کی آزادی کو تسلیم نہیں کیا لیکن جب 1783ء میں ''پیرس معاہدہ‘‘ سامنے آیا تو سپین نے بھی امریکہ کا اعلانِ آزادی تسلیم کر لیا۔ معاہدے کی شرائط کی رو سے جس نے امریکی انقلاب کی جنگ کا خاتمہ کر دیا تھا، برطانیہ نے سرکاری طور پر امریکہ کو آزاد اور خودمختار قوم کے طور پر تسلیم کر لیا۔ یہ سب امریکیوں کی جدوجہد کا ثمر تھا۔ انہوں نے کامل یکسوئی اور جہدِ مسلسل سے آزادی حاصل کی۔  

آج کا دن

آج کا دن

ائیر بریک کی ایجادجارج ویسٹنگ ہاؤس جونیئر پنسلوانیا میں مقیم ایک امریکی تاجر اور انجینئر تھا۔ 1905ء میں آج کے دن اس نے ریلوے ایئر بریک بنائی اور برقی صنعت میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔اس نے 19 سال کی عمر میں اپنا پہلا پیٹنٹ اپنے نام رجسٹر کروایا۔ ویسٹنگ ہاؤس نے1880ء کے اوائل میں الیکٹرک پاور کی تقسیم کے لیے متبادل کرنٹ کے استعمال کی صلاحیت کو دیکھا اور اپنے تمام وسائل کو اس کی ترقی اور مارکیٹنگ میں لگا دیا۔وینیرا پروگرام''وینیرا 14‘‘ روس کی جانب سے شروع کیا جانے والا ایسا پروگرام تھا جس کا مقصد زہرہ کی تلاش کرنا تھا۔ یہ سوویت یونین کے وینیرا پروگرام کا ایک اہم حصہ تھا۔وینیرا 14 وینیرا 13 خلائی جہاز سے مماثل تھا اور اسے 1981ء کے وینس لانچ کے موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ اسے پانچ دن کے فاصلے پر لانچ کیا گیا۔ وینیرا 14کو 4 نومبر 1981 اور ''وینیرا 13‘‘ کو 30اکتوبر 1981ء کو لانچ کیا گیا ۔ دونوں ہی خلائی جہاز 760 کلوگرام وزن کے ساتھ مدار میں پہنچے تھے۔''اکاسی کائیکو ر ‘‘کا افتتاح5اپریل 1998 ء کو جاپان میں کوبے شہر اور آواجی نامی جزیرے کو آپس میں ملانے کے لئے اس وقت دنیا کے سب سے طویل پل کا افتتاح کیا گیا۔ اس پل کا نام اکاسی کائیکو رکھاگیا۔ اسے جاپان میں فن تعمیر کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔جس وقت اسے عوام کیلئے کھولا گیا اس کی لمبائی ایک ہزار991میٹر تھی۔اس شاندار پل کو مکمل ہونے میں 10سال کا طویل عرصہ لگا اوریہ ہزاروں افراد کی آمدورفت کا محفوظ ذریعہ بنا۔ارینا طوفان نے تباہی مچائیارینا ایک بہت بڑا ٹراپیکل طوفان تھا۔ اس نے مڈغاسکر، موزمبیق اور جنوبی افریقہ میں تیز ہواؤں اور بارشوں سے بہت زیادہ تباہی مچائی۔ اس کی تباہ کاریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس طوفان نے 2011ء اور 2012ء کے سیزن میں سب سے زیادہ تباہی مچائی اور نقصان پہنچایا۔ اس لئے اسے تاریخ کے بدترین طوفانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ارینا ایک ایسی ٹراپیکل لہر سے بنا جو مڈغاسکر کے شمال میں واقع تھی۔یہ بغیر کسی رکاوٹ کے جنوب کی جانب بڑھا اور ارینا کی شکل اختیار کر گیا۔ارینا مڈغاسکر کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا جس کی وجہ سے شدید سیلاب آیا ۔ 

مہندی کے بغیر عید کی خوشیاں ادھوری

مہندی کے بغیر عید کی خوشیاں ادھوری

عیدالفطر ہو یا عیدالاضحیٰ، خواتین کیلئے عید کی خوشیاں جہاں میک اپ اور خوبصورت لباس کے بنا ادھوری لگتی ہیں۔ اسی طرح سادہ ہتھیلیاں بھی جچتی نہیں ہیں۔ عموماً خواتین مہندی لگانے سے ہچکچاتی ہیں ۔ بڑی بزرگ خواتین بہوئوں، بیٹیوں کو مہندی رچانے کی تاکید کرتی ہیں کہ یہ سنت نبوی ﷺ بھی ہے اور مشرقی روایتوں کا حسن بھی ہے۔ عید اپنے مکمل لوازمات اور رواجوں کے ساتھ ہی منائی جاتی ہے ان میں ایک رواج چاند رات کو مہندی لگانا بھی ہے۔مہندی برصغیر پاک و ہند کی قدیم ترین روایت ہے، یہ ایک ایسا فیشن ہے جو ہر عمر کی خواتین بلا جھجھک کرتی ہیں۔ پرانے وقتوں میں حنا محض شادی بیاہ کی تقریبات یا عید وغیرہ پر ہی ہاتھوں پر لگائی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے، اس میں بھی جدت آ رہی ہے۔مہندی کی کئی اقسام ہیں مثلاًکالی مہندی، لال مہندی۔کالی مہندی نیل کے پودے سے تیار کی جانے والی مہندی ہے۔بازار میں کیمیکل والی مہندی بھی دستیاب ہے۔ آپ صرف آئوٹ لائن بنا کر اندر لال مہندی سے بھرائی کروا سکتی ہیں۔ لال مہندی کی شیڈنگ بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے حساس جلد والی خواتین کالی مہندی استعمال نہ کریں۔لال مہندی ہی قدرتی مہندی ہے اس سے جلد پر عموماً کوئی الرجی نہیں ہوتی۔ عام دنوں میں بھی مہندی کے پتے پیس کر تلوئوں جسم اور ہتھیلیوں پر لگانے سے ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ کون مہندی آپ گھر میں خودبھی تیار کر سکتی ہیں۔ فریز بیگ یا Poly Poilکو چوکور کاٹ کر اس کے اوپر والے حصے کو فولڈ کرتے ہوئے نیچے لائیں، جب سارا موڑ لیں تو آخری سرے کو ٹیپ کی مدد سے جوڑ لیں۔ مہندی اس میں ڈال کر کھلے حصے کو موڑ کر ٹیپ سے بند کر دیں آپ کی کون مہندی تیار ہے۔مہندی سوکھ کر جڑنے لگے تو کپڑے سے پونجھ کر سرسوں کا تیل مل لیں۔ مہندی کا رنگ تیز ہو جائے گا۔مہندی کے گہرے رنگ کیلئے چینی کے شیرے میں لیموں کے چند قطرے ملا کر روٹی کی مدد سے لگایئے اور پانچ چھ لونگ توے پر گرم کریں اوپر ڈھکن سے ڈھانپ دیں تو بھاپ بن جائے گی اس پر ہاتھ کو سینکیں آپ کی مہندی کا رنگ تیز ہو جائے گا۔ہماری دادی اور نانی کے زمانے میں مہندی لگانے کیلئے وقت اور محنت دونوں درکار ہوا کرتے تھے، مہندی کے پتوں کو سِل پر پیسا جاتا تھا اور پھر ہاتھوں پر ٹکیا یا انگلیوں کے پوروں پر لگا لیا جاتا تھا جس کے بعد گھنٹوں دلکش رنگ آنے کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن آج کل مختلف رنگوں والی مہندی کی کونیں باآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔اگر بات کی جائے مہندی کے ڈیزائنز کے حوالے سے تو اب کافی کچھ تبدیل ہو چکا ہے، لڑکیوں کی پسند میں بھی خاصی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔مہندی لگانااب ایک مکمل آرٹ ہے، پہلے دور کے لوگوں کو آگاہی نہیں تھی کہ باریک مہندی زیادہ دلکش اور خوبصورت دکھائی دیتی ہے، وہ لوگ موٹی مہندی یا صرف فلنگ والی مہندی کو ترجیح دیتے تھے جب کہ اب ایسا بالکل نہیں ہے۔ مہندی کا رواج ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، لڑکیاں صرف مہندی لگوانے کی شوقین نہیں بلکہ لگانے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ جس طرح پرانے وقتوں کے کپڑوں کے اسٹائل آج کل دوبارہ اِن ہیں ایسا ہی کچھ مہندی کے ٹرینڈ میں بھی ہے۔ماضی میں مغلیہ طرز کی مہندی لگائی جاتی تھی کیونکہ اس وقت کے لوگوں کی ڈیمانڈ تھی جن میں مہراب، مغل آرٹ کے طرز کے چیک اور منفرد قسم کے پھول شامل تھے۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب لوگ عربی طرز کی مہندی پسند کیا کرتے تھے جو کہ بڑے بڑے پھولوں والی ہوا کرتی تھی لیکن پھر کپڑوں اور بالوں کے اسٹائل کی طرح مہندی کے ٹرینڈ بدل گئے تاہم اب ایک بار پھر مہراب اور مغلیہ دور میں لگنے والی مہندی کا ٹرینڈ واپس لوٹ آیا ہے۔ سفید، لال، براون اور کالی مہندی میں سب سے زیادہ مانگ براون اور کالی مہندی کی ہے کیونکہ اس کا رنگ پکا اور دیر تک رہنے والا ہوتا ہے، اس کے علاوہ یہ ہاتھوں پر بھی انتہائی نفیس اور خوبصورت دکھتا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں میں آج کل بنچز (ٹکیا والی مہندی کا ڈیزائن)، مہراب اور انگلیوں پر نفیس ڈیزائن بہت زیادہ اِن ہیں۔پہلے پانچوں انگلیوں پر ایک سا ڈیزائن بنایا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے، آج کل پانچوں انگلیوں پر مختلف ڈیزائن کی مہندی لگائی جاتی ہے جو بے پناہ خوبصورت لگتی ہے اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ بھی کرتی ہے۔علاوہ ازیں جال والے ڈیزائنز بھی بہت زیادہ اِن ہیں جو لڑکیوں سمیت خواتین میں بھی کافی مقبول ہیں۔اس بار آ پ ہندوستانی، عربی،راجستھانی، سوڈانی جیسی چاہیں مہندی لگایئے اور اگر اسٹون اور گلیٹر والی مہندی کا شوق ہے تو ضرور لگوایئے مگر ٹھہریئے، یاد رکھئے کہ آپ کو گھرگرہستی کے کام بھی نمٹانے ہیں۔ بہرحال اگر آپ کی رنگت سانولی ہے تو مہندی کے ڈیزائن میں آئوٹ لائن گہرے رنگ کی بنوایئے ،گورے اور صاف رنگت والی جلد رکھنے والی بہنیں باریک ڈیزائن والی یعنی ہندوستانی ڈیزائن بنوائیں تو بہت بھلی لگیں گی۔

شرارتی ہاتھی

شرارتی ہاتھی

سردیوں کا موسم قریب تھا اور رانی چیونٹی اس سے پہلے پہلے تمام کام نمٹانا چاہتی تھی۔وہ باقی چیونٹیوں کے ساتھ مل کر جلد از جلد اپنے پورے گروہ کیلئے محفوظ گھر تیار کرنا چاہتی تھی جس میں پیٹ بھرنے کیلئے اناج بھی اکٹھا کیا جا سکے۔

ایک کہانی شیخ سعدی ؒ کی

ایک کہانی شیخ سعدی ؒ کی

پیارے بچو! آپ نے حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ کا نام تو ضرور سنا ہوگا۔ یہ بھی سنا ہوگا کہ ان کی دوبڑی مشہور کتابیں ہیں’’ گلستاں‘‘ اور ’’بوستان‘‘۔ جب بابا سائیں مدرسے میں پڑھتے تھے نا اس وقت مدرسے کے ایک مولوی صاحب ’’گلستان‘‘ کی کہانیاں سناتے تھے، صرف سناتے ہی نہ تھے بلکہ کہانی میں پوشیدہ مفہوم بھی سمجھا دیتے تھے۔

اصل خوبی

اصل خوبی

بارش ختم ہو چکی تھی۔ تمام بچے اسکول پہنچ چکے تھے۔ دوسرے بچوں کی طرح سارہ بھی سرخ چھتری لے کر اسکول میں داخل ہوئی۔ اس کی چھتری بہت خوبصورت تھی۔ اس نے اپنی تمام سہیلیوں کو بتایا: یہ چھتری مجھے فرانس سے میری خالہ نے بھیجی ہے۔

ذرامسکرایئے

ذرامسکرایئے

باپ: ’’ ہر شخص صفائی کو پسند کرتا ہے‘‘۔ بیٹا: ’’لیکن امی کو صفائی بالکل پسند نہیں ہے‘‘۔ باپـ’’ وہ کیوں؟‘‘بیٹا: ’’ آج میں نے الماری میں رکھا ہوا حلوہ صاف کیا تو امی نے میری مرمت کر ڈالی‘‘۔…٭٭…

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز