راہِ ہدایت
(اور سلیمانؑ نے )دعا کی اے میرے پروردگار مجھے معاف کر اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد کسی کو شایاں نہ ہو ۔بے شک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔ (سورۃ ص:آیت 35)

وزیراعظم شہباز شریف آج سعودی عرب روانہ ہوں گے، اہم ملاقاتیں متوقع


اسلام آباد : (دنیانیوز) وزیراعظم شہباز شریف آج دو روزہ دورے پرسعودی عرب روانہ ہوں گے جہاں وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرینگے ۔


اشتہار

راولپنڈی (خصوصی نیوز رپورٹر،دنیا نیوز)آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے سفر میں کسی قسم کا عدم استحکام برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اسلام آباد(نمائندہ دنیا،نامہ نگار، دنیا نیوز، اے پی پی) وفاقی حکومت نے اربوں کی ٹیکس چوری پر ایکشن لیتے ہوئے ایف بی آر میں گریڈ 21 اور 22 کے 12 افسروں کو او ایس ڈی بنا دیا۔

لاہور (اے پی پی ،مانیٹرنگ ڈیسک )وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازنے کہا ہے کہ صوبے میں ایئر ایمبولینس سروس کا دائر ہ کار بڑھایا جائیگا ،،انسانی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں، تمام تر وسائل عوام پر خرچ کرینگے ، ایئر ایمبولینس سروس کو دیگر صوبوں میں بھی ایمرجنسی کی صورت میں مدد کے لئے فراہم کیا جائے گا۔

لاہور(اپنے نامہ نگارسے ،نیوز ایجنسیاں ، دنیا نیوز)مسلم لیگ ن پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی گئی۔

متفرقات

امریکہ :مہاجروں کی سرزمین

امریکہ :مہاجروں کی سرزمین

'' کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘امریکہ دراصل مہاجروں کی سرزمین ہے۔ ایسے ملک کے متعلق عام فہم الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ '' کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ تو بے جا نہ ہوگا۔ امریکہ کے اصل مکین اس وقت آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ باقی سارے لوگ کوئی کہیں سے آیا تو کوئی کہیں سے۔ گوروں نے تین چار صدی قبل اپنی سہولت اور خدمت کیلئے افریقہ کے کالے لوگوں کو یہاں بسایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہی کالے انہی کے حاکم بنے بیٹھے ہیں۔ ان میں سابق صدر بارک اوباما، سابق وزرائے خارجہ بیڈن پاول اور کونڈالیزا رائیس نمایاں شخصیات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ راقم نے دیکھا کہ امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں کئی اہم عہدوں پر کالے براجمان ہیں۔ پولیس چیف، شہروں کے میئر، عالمی شہرت کی حامل یونیورسٹیوں کے سربراہ اور کئی محکموں میں کالے بلاتفریق اپنا اپنا رول ادا کر رہے ہیں، گو یہ مقام انہیں بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔ کالوں(سیاہ فام) کو یہ شہری آزادی اور عزت دلوانے کی خاطر امریکہ کے نامور صدور کو بھی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لیکن آج کل امریکہ میں تعصب کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ امریکہ اور اہل امریکہ نے خندہ پیشانی سے باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو خوش آمدید کہا ہے۔ یقیناً یہ فراخ دلی کا ثبوت ہے۔ باہر کی دنیا سے آئے ہوئے ایسے ایسے دانشور اور انٹلیکچوئل اکٹھے ہو گئے ہیں کہ آج انہوں نے ساری دنیا کو آگے لگا لیا ہے۔ حکومت نے تھنک ٹینکوں کا ایک بریگیڈ تشکیل دے دیا ہے جس کے نتیجہ میں امریکہ نے ساری دنیا کو ایک شہر کی حیثیت دے کر خود کو کوتوال شہر بنا لیا ہے۔ یہ امریکہ کی خوش قسمتی ہے کہ شمال اور جنوب میں صرف دو معصوم سے ممالک کی اسے قربت حاصل ہے۔امریکہ بذات خود اتنا بڑا ملک ہے کہ اس کی 50 ریاستوں میں سے کئی ریاستیں دنیا کے کئی ممالک سے بھی بڑی ہیں۔ قدرت نے دو بڑے سمندروں کے ہزار ہا میل لمبے کنارے دیئے ہیں۔ امریکہ میں ہر طرح کا موسم موجود ہے۔ اتنی نسلوں اور قسموں کے لوگ وہاں آباد ہیں جس کی نظیر دنیا کے کسی اور ملک میں ملنی مشکل ہے۔ گویا امریکہ ایک طرح سے چوں چوں کا مربہ ہے۔ دنیا کی ہر زبان کے لوگ امریکہ میں موجود ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اخبار امریکہ سے شائع ہو رہا ہے۔ اور پھر جمہوریت کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ عالمی سطح پر کشتی لڑنے والا پہلوان بھی اپنی ریاست کا گورنر منتخب ہو جاتا ہے۔ کبھی وقت تھا کہ برطانیہ کی نو آبادیات میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اب یہ اعزاز امریکہ کو حاصل ہے۔ آج امریکہ کا دائرہ اختیار آٹھ ٹائم زونوں پر محیط ہے۔ اس ملک کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جیسے ہمارے ملک کی سرحدوں سے شروع ہو کر فلپائن تک ایک ہی ملک ہو۔اگر آپ سابقہ سوویت یونین کی کسی ریاست یا کسی عرب ملک میں چلے جائیں تو ہر وقت آپ کو اپنی شناخت کیلئے پاسپورٹ رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ میں اگر آپ ایک دفعہ داخل ہو گئے تو آپ اپنا پاسپورٹ اپنے اٹیچی میں سنبھال کر رکھ لیں، کہیں کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹ سے اپنے ملک واپس جا رہے ہوں آپ سے پاسپورٹ طلب نہیں کیا جائے گا۔خیر یہ تو امریکہ کا ایک رخ ہے، امریکہ میں ایسے ایسے جرائم جنم لیتے ہیں جن کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہے۔ پولیس والوں کو مجرموں کے ہاتھوں پٹتے دیکھا ہے۔ پولیس سے اسلحہ چھین کر پولیس پر ہی استعمال ہونے کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ سوفٹ چوڑی سڑک کے ایک طرف سے سرنگ کھود کر بنکوں کی تجوریاں خالی کرنے کے واقعات بھی امریکہ میں ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ چھ سالہ بچے کو باپ کی کار کی چابیاں Ignitionمیں ڈال کر کار کو شہر کی سڑکوں پر گھماتے ہوئے دیکھا گیا۔ اور تو اور ایک 13سالہ بچے نے ایئرپورٹ سے سیسنا طیارہ نہ صرف اڑایا بلکہ بحفاظت قریبی شہر کے ایئرپورٹ پر اتار بھی لیا۔ خیر جتنا بڑا ملک اتنی بڑی باتیں۔مذہب کی اتنی آزادی ہے کہ کئی چرچوں کے ماتھے پر برائے فروخت کے بورڈ آویزاں ہیں۔ بلکہ کئی چرچ تو مساجد میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کہیں مذہبی تعصب نظر نہیں آتا، ہاں کہیں ایک آدھ مثال ہے تو وہ کسی کا ذاتی جنون ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں ایسی ایسی قدرتی آفات آتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اگر کہیں آگ بھڑک اٹھتی ہے تو کیلیفورنیا کے وسیع جنگل میل ہا میل تک شعلوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ سمندری طوفان آتا ہے تو پورے کے پورے مکانات سڑکوں پر دھرے نظر آتے ہیں۔ اگر بجلی چلی جائے تو پورے امریکہ کا 1/4(ایک چوتھائی) تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ ہمارے ساتھ ہوا کیسے؟ مگر پھر بھی امریکہ کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے نہ اس کی تھانیداری پر۔ امریکہ ہر طور اپنا جھنڈا بلند کئے ہوئے ہے۔  

’’میں چڑیا گھر میں ہوں‘‘

’’میں چڑیا گھر میں ہوں‘‘

یوٹیوب پر اپ لوڈ ہونے والی سب سے پہلی ویڈیوآپ روزانہ یوٹیوب پر بہت سی ویڈیو دیکھتے ہیں جن میں سے کچھ ویڈیو محفوظ (سیو) کر لیتے ہیں اور بعض کو شیئر بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ذہنوں میں ایک سوال آتا ہے کہ سب سے پہلے یو ٹیوب پر کونسی ویڈیو اپ لوڈ کی گئی تھی؟۔ تو آئیے ہم کو آپ کوبتاتے ہیںکہ وہ کونسی ویڈیو تھی جو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی، اس کا تخلیق کار کون تھااور اس نے یہ ویڈیوکہاں پر جا کر شوٹ کی تھی۔ 2005ء کے آغاز میں انٹرنیٹ کا جال دنیا بھر میں پھیل چکا تھا اور تقریباً ہر کوئی انٹرنیٹ تک رسائی رکھتا تھا۔ 14 فروری 2005ء میں پے پال کمپنی کے تین سابق ملازمین جاوید کریم، سٹیوچن اور چاڈ لی نے انٹرنیٹ پر ویڈیو شیئرنگ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ''یو ٹیوب‘‘ کا آغاز کیا۔ یو ٹیوب کی تخلیق نے ویڈیو دیکھنے، ویڈیو بنانے اور ویڈیو شیئر کرنے میں انقلاب برپا کر دیا۔یو ٹیوب کے آنے سے دنیا میں ایک نئی صنعت قائم ہوئی اورآج یوٹیوبرز اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کر کے اشتہارات کی مد میں اچھی خاصی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ یہ 7 اپریل 2005ء کی بات ہے جب جاوید کریم نے ''می ایٹ دی زو‘‘نامی پہلی یوٹیوب ویڈیو پوسٹ کی۔ 18 سیکنڈ کی ویڈیو، جس کا عنوان ہے ''میںچڑیا گھر میں ہوں‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جاوید، کریم، یو ٹیوب کے شریک بانی، سین ڈیاگو چڑیا گھر میں ہاتھیوں کے ایک جھنڈ کے سامنے کھڑے ہیںاور کہہ رہے ہیں کہ ''ٹھیک ہے، تو یہاں ہم ہاتھیوں کے سامنے ہیں، وہ ویڈیو کلپ میں مزید کہتے ہیں ''ان لڑکوں کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ ان کے پاس واقعی، واقعی، واقعی لمبے تنے ہیں، اور یہ بہت اچھا ہے اور بس اتنا ہی کہنا ہے‘‘۔''می ایٹ دی چڑیا گھر‘‘ کو جاوید کریم نے اپ لوڈ کیا تھا، جو یوٹیوب کے تین بانیوں میں سے ایک ہیں، اور اسے سین ڈیاگو چڑیا گھر میں کچھ ہاتھیوں کے ساتھ ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔آج، ''Me At the Zoo ‘‘کو پانچ کروڑ چالیس لاکھ (54,000,000) سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے اور تقریباً دس لاکھ اس پر تبصرے ہیں۔ جاوید کریم کی اس ویڈیو نے انیرنیٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا اور یوٹیوب کو ویڈیو شیئرنگ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بنانے میں مدد کی۔ اس ویڈیو نے کئی نئی آن لائن صنعتیں شروع کیں اور لوگوں کے میڈیا استعمال کرنے کا طریقہ بدل دیا۔آج کل یوٹیوب پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والے یوٹیوبرزنے زیادہ تر روایتی طریقہ اپنا رکھا ہے جیسا کہ ''میرے چینل کو سبسکرائب کریں،لائک کریں اور کمنٹ ضرور کریں۔ جاوید کریم کی ویوڈیو بہت ہی سادہ ہے اور انہوں نے صرف اتنا ہی کہہ کر ویڈیو ختم کردی کہ ''بس اتنا ہی کہنا ہے ‘‘۔''می ایٹ دی زو‘‘ ویڈیو اپ لوٹ ہونے کے ایک سال بعد جاوید کریم اوران کے ساتھی شریک بانی نے یہ پلیٹ فارم گوگل کو 1.65 بلین ڈالرمیں فروخت کردیا تھااور اس وقت یوٹیوب کے مطابق یوٹیوب پلیٹ فارم پر ہر ماہ 2 ارب سے زیادہ صارفین وزٹ کرتے ہیں اور ویڈیوز دیکھتے ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے یوٹیوب انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پلیٹ فارم ہے۔ اس وقت ٹی وی شوز، فلموں اور لائیو سٹریمنگ سروس کے ساتھ یو ٹیوب انٹرنیٹ کا سب مقبول پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ یوٹیوب انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں روزانہ ایک ارب گھنٹے کا مواد دیکھا جاتا ہے اور یہ سب جاوید کریم کی ویڈیو''می ایٹ دی زو‘‘ کے اپ لوڈ ہونے کے ساتھ شروع ہوا۔ یوٹیوب کے ماہانہ 2.5 ارب سے زیادہ صارفین ہیں جو اجتماعی طور پر روزانہ ایک ارب گھنٹے سے زیادہ ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ مئی 2019ء تک، ویڈیوز کو پلیٹ فارم پر 500 گھنٹے سے زیادہ مواد فی منٹ کی شرح سے اپ لوڈ کیا جا رہا تھا اور 2021ء تک، مجموعی طور پر تقریباً 14 ارب ویڈیوزیو ٹیوب پر اپ لوڈ ہو چکی تھیں ۔اکتوبر 2006ء میں، یوٹیوب کو گوگل نے 1.65 بلین ڈالرمیں خریدا تھا ۔ گوگل نے صرف اشتہارات سے آمدنی سے یوٹیوب کے کاروباری ماڈل کو بڑھایا، بامعاوضہ مواد جیسے فلمیں اور یوٹیوب کے ذریعہ تیار کردہ خصوصی مواد کی پیشکش تک۔ یوٹیوب نے گوگل کے ایڈسینس پروگرام میں شامل کیا، جس سے یوٹیوب کے صارفین کی آمدن میں اضافہ ہوا اور 2022ء میں یوٹیوب کی سالانہ اشتہاری آمدنی بڑھ کر 29.2 بلین ڈالر ہوگئی جو کہ 2020ء کے مقابلے میں 9 بلین ڈالر زیادہ بنتی ہے۔گوگل نے خریدار ی کے بعد یوٹیوب کی ویب سائٹ کو مزید بہتر بنایا اور موبائل ایپس ، نیٹ ورک ٹیلی ویژن اور دوسرے پلیٹ فارمز کے ساتھ لنک کر کے یوٹیوب کے صارفین میں اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر ویڈیو کیٹیگریز میں میوزک ویڈیوز، ویڈیو کلپس، خبریں، مختصر اور فیچر فلمیں، گانے، دستاویزی فلمیں، مووی اور ٹیزر ٹریلرز، لائیو سٹریمز، وی لاگز اور بہت کچھ شامل کیا۔ یوٹیوب پلیٹ فارم پر زیادہ تر موادصارفین یعنی یوٹیوبرز کے ذریعہ تیار کیا جاتا ہے۔YouTube نے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ اپنی ترقی اور کامیابی کے باوجود یوٹیوب کے پلیٹ فارم پر بعض اوقات مبینہ طور پر غلط معلومات پھیلانے، کاپی رائٹ شدہ مواد کے اشتراک، اپنے صارفین کی رازداری کی خلاف ورزی، سنسرشپ کو فعال کرنے، بچوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو خطرے میں ڈالنے، اور پلیٹ فارم کے متضاد یا غلط نفاذ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔   

آج کا دن

آج کا دن

'' اپالو 16‘‘ کی چاند سے زمین پر واپسی 27 اپریل 1972ء کو امریکہ کی طرف سے خلا میں بھیجا جانے والا خلائی جہاز ''اپالو 16‘‘ چاند سے واپس زمین پر اترا۔ ''اپالو 16‘‘ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اپالو خلائی پروگرام کا دسویں مشن تھا، جو ''ناسا‘‘ کے زیر انتظام تھا اور چاند پر اترنے والا یہ پانچواں اور اختتامی مشن تھا۔ اس مشن کے دوران خلاء بازوں نے 71گھنٹے چاند پر گزارے اس دوران انہوں نے 20 گھنٹے 14 منٹ پر مشتمل تین بار چاند پر چہل قدمی بھی کی۔یونان پر قبضہ1941ء میں آج کے دن یونان پر اس وقت قبضہ شروع ہوا جب نازی جرمنی نے اپنے اتحادی اٹلی کی مدد کیلئے سلطنت یونان پر حملہ کیا۔ جون 1941ء تک تمام یونان پر قبضہ کر لیا گیا۔ یہ قبضہ جرمنی اور اس کے اتحادی بلغاریہ کو اکتوبر 1944ء میں اتحادیوں کی جانب سے دباؤ پر دستبردار ہونے تک جاری رہا۔ ڈنیپروپیٹروسک دھماکے27اپریل 2012ء میں یوکرین میں ڈنیپرو پیٹروسک کے چار ٹرام سٹیشنز پر دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بم دھماکے دو گھنٹے کے اندر ہوئے۔ چار گھریلو ساختہ بم چار ٹرام اسٹیشنوں کے قریب کوڑے دان میں رکھے گئے تھے۔ پہلا بم اس وقت پھٹا جب ٹرام مسافروں کو لینے کیلئے سست ہو رہی تھی۔ دوسرا بم 30 منٹ بعد پھٹا۔ تیسرا بم دوسرے کے فوراً بعد پھٹا۔ چوتھے دھماکے کے بعد ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان معاہدہ27 اپریل 2018ء کو شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن کے درمیان کوریا کے امن، خوشحالی اور دوبارہ اتحاد کیلئے پانمونجوم اعلامیہ پر کوریائی سربراہی اجلاس جوائنٹ سکیورٹی ایریا میں پیس ہاؤس کی جانب سے دستخط کئے گئے۔ اعلامیے کے مطابق شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی حکومتوں نے کوریائی جنگ اور کوریائی تنازعے کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کیلئے تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔یہ اعلامیہ 6 ستمبر 2018 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔وِلو(willow) جزیرہ کی تباہی 27 اپریل 1978ء کو وِلو (willow) آئی لینڈ، ویسٹ ورجینیا میں پلیزنٹس پاور اسٹیشن پر زیر تعمیر کولنگ ٹاور گر کر تباہ ہو گیا۔اس خوفناک حادثے میں تعمیراتی سائٹ پر موجود 51 کارکن جاں بحق ہوئے۔ اسے امریکی تاریخ کا سب سے مہلک تعمیراتی حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی کے دوران، دریائے اوہائیو کے کنارے وادی میں کوئلے سے چلنے والے بہت سے پاور پلانٹس بنائے جا رہے تھے۔ الیگینی پاور سسٹم ولو آئی لینڈ پر ایک اور بڑا پلانٹ بنا رہا تھا، جس میں دو الیکٹرک جنریٹر موجود تھے ۔ 

قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

قصہ پارینہ بنتی: ذاتیں اور پیشے

زمانہ قدیم کے انسان نے جب معاشرہ تشکیل دیا تو اسے سب سے پہلے اپنے استعمال کیلئے دو چیزوں کے ذخیرہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی ، ایک پانی اور دوسرا اناج۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی اس روئے زمین پر دھات ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان کو صرف مٹی ہی دستیاب تھی، جسے بروئے کار لاکر انسان نے پانی اور اناج کو ذخیرہ کرنے کیلئے کٹورہ نما برتن ایجاد کیا ہو گا۔ شاید یہ اس روئے پر پہلا برتن ہو گا۔ اس کے بعد کے انسان نے شکار کیلئے جس اوزار کو استعمال کیا وہ پتھر سے بنا نوک دار تیر نما ہتھیار تھا۔ بعد ازاں دھات کی ایجاد کے ساتھ ہی انسان نے دھات سے کلہاڑی ، چھری اور اس طرح کے دیگر اوزار اپنی روزمرہ زندگی کی ضرورت کے مطابق بنانا شروع کئے۔ لکڑی کا استعمال بھی انسانی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جب انسان نے ایندھن کے علاوہ لکڑی کو تعمیراتی استعمال کے ساتھ ساتھ گھریلو ضرورت کی اشیاء بنانے میں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ شروع میں لوگ اپنی ضرورت کی اشیا خود بنا لیا کرتے تھے جسے اڑوس پڑوس والے باوقت ضرورت مستعار بھی لے لیا کرتے تھے۔لیکن جب معاشرتی حجم میں اضافہ ہوتا گیا تو انسانی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں تو ایک فرد یا ایک خاندان کیلئے مختلف انواع کی اشیاء ایک ساتھ بنانا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ افراد نے اپنی آسانی کے مطابق یہ کام بانٹ لئے۔ شاید یہی وہ دور تھا جب اس معاشرے میں ہنر کی تقسیم کی بنیاد کے ساتھ ہی انسانی پیشے کے حوالے سے انسانی ذات کی بھی بنیاد پڑی۔دراصل ''ذات‘‘ بنیادی طور پر ایک سماجی رابط کا نام ہے جو اسے اپنے پیشے ، ثقافت ، تہذیب اور وراثت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔یوں لکڑی کے ہنرمند کو '' ترکھان‘‘ ، لوہے کے کاریگر کو '' لوہار‘‘ ، اعلیٰ ہذا القیاس موچی ، جولاہا ، کمہار وغیرہ کی ذاتیں معرض وجود میں آتی چلی گئیں۔ ان پیشوں کی شناخت انیسویں صدی عیسوی میں اس وقت اور بھی نمایاں ہو گئی جب پنجاب کے دیہاتوں میں بالخصوص سکھ شاہی کے دور میں اپنی روزمرہ زندگی کے دوران سرداروں اور وڈیروں کو اپنے لئے کمیوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی۔جہاں یہ لوگ زراعت کیلئے ہل، درانتی اور دیگر اوزار بنانے کے ساتھ ساتھ کپڑا بننے،رنگنے ، جوتیاں بنانے ، لکڑی سے فرنیچر اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء بنانے میں مصروف رہتے تھے اور یوں یہ ''کردار‘‘ ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک بن کے رہ گئے۔ ذیل میں ہم ان میں سے چند کرداروں کا فرداً فرداً تعارف کراتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو چکے ہیں یا معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔کمہارکمہار ، مٹی کے برتن بنانے والے کو کہتے ہیں۔ یہ پیشہ انسانی تہذیب کا سب سے پرانا پیشہ یوں ہے کہ انسان نے جب معاشرے کو تشکیل دیا تو سب سے پہلے اس نے مٹی کے برتنوں کو رواج دیا ۔اس کے بعد قدیم ترین تہذیبوں سے انسانی اور جانوروں کی شکل میں کچھ مورتیاں بھی ملی تھیں جو چوبیس ہزار سال قبل مسیح کے دور کی بتائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ چودہ ہزار سال قبل مسیح میں میسو پیٹیمیا ( موجودہ عراق )سے مٹی کی بنی اینٹیں بھی ملی ہیں۔ایک وہ دور تھا جب مٹی سے بنے پانی کے کٹورے سے لے کر ہانڈی تک روزمرہ ضرورت کی بیشتر اشیاء کمہاروں کی کاریگری کا پیش خیمہ ہوتی تھیں۔ وقت گزرنے ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ دھات ، پلاسٹک اور چائنا مٹی کے بننے والے برتنوں کی تیاری ہے۔جس کے باعث اب گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ نتیجتاً اس قدیم فن کے روح رواں دن بدن مالی مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس کے سبب وہ اپنی نئی نسل کو اس فن سے دور رکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور یوں صدیوں پرانا یہ فن اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے اب آخری سانس لینے پر مجبور ہو چکا ہے۔لوہارکسی دانشور نے ایک موقع پر کیا خوب کہا تھا کہ ''کاشتکاری ، لوہار کے بغیر ایسے ہی جیسے پانی کے بغیر کاشتکاری‘‘۔ اگر بات پنجاب کی، کی جائے تو پنجاب میں صدیوں سے زراعت کا شعبہ نمایاں رہا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کاشتکاری کی غرض سے دیہاتوں میں آباد کہنا کرتی تھی۔ کاشتکاری چونکہ ایک ''ٹیم ورک‘‘ کا نام ہے اس لئے دیہاتوں میں اس ٹیم کو ''کامے‘‘ یا ''کمی‘‘ کہا جاتا تھا۔ زراعت میں ان افراد کی حیثیت بنیادی ہوتی تھی اس لئے ان کے بغیر کاشتکاری یا زرعی نظام کا چلنا ناممکن ہوتا تھا۔یہ کامے جو لوہار ،ترکھان ، نائی ، مصلی، جولاہوں وغیرہ پر مشتمل ہوتے تھے، انہیں معاشرے میں نیچ سمجھا جاتا تھا۔لوہار ایسا پیشہ تھا جو زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ زرعی اوزار بنانا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے تھا۔چنانچہ یہی وجہ تھی کہ لوہار ، کمی طبقے کا سب سے معزز کردار سمجھا جاتا تھا ۔ اب وقت بدل گیا ہے کیونکہ بیلوں کی جوڑی کے ساتھ لوہار کے بنے ہلوں کی جگہ اب ٹریکٹر نے لے لی ہے ، لکڑیاں کاٹنے والے آلات کی جگہ الیکٹرک آرے نے لے لی حتی کہ فضل کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک کے تمام مراحل اب جدید مشینوں نے سنبھال لئے ہیں۔ایسے میں اب لوہار کا وجود صرف چھوٹی چھوٹی چھریوں، درانتیوں اور کچھ دیگر اوزاروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس کے سبب یہ اپنی اگلی نسل کو اپنا موروثی پیشہ منتقل کرنے پر تیار نہیں ہے ۔موچیموچی کو عام طور پر ''چمار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گئے دنوں میں موچی کو دیہی علاقوں بالخصوص پنجاب کے دیہاتوں میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ موچی کا کام ویسے تو دیہی علاقوں میں جوتیاں بنانا، مرمت کرنا، بیل گاڑیوں اور دیگر جانوروں کے چھانٹے بنانا اور چمڑے کے دوسرے متفرق کام کرنا ہوتا تھا لیکن دیہاتوں میں موچی سے فصلوں کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک اور محنت مزدوری کے دوسرے کام بھی لئے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ موچی کا کام جوتے بنانے تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ دیگر پیشوں بالخصوص زرعی پیشے میں مشینی انقلاب نے ہنر مندوں کی ہنر مندی کو مشینوں کے تابع لا کھڑا کیا۔ نتیجتاًجفت ساز (موچی )تیزی سے بے روزگار ہونے لگے اور اب یہ پیشہ صرف جوتا مرمت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ مشینوں پر تیار جوتے باآسانی دستیاب ہو چکے ہیں جس کے سبب ان کی نئی نسل اب تیزی سے اس خاندانی پیشہ سے کنارہ کشی اختیار کرتی جارہی ہے۔ جولاہااب سے لگ بھگ چار، پانچ عشرے پہلے تک ''جولاہا‘‘ جسے پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ''پاولی‘‘بھی کہا جاتا ہے ،پنجاب کی ثقافت اور سماجی زندگی کا ایک اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ پنجاب کے ہر گاؤں میں جہاں نائی ، کمہار ، موچی ،تیلی، کمہار اور ترکھان ہوا کرتے تھے وہیں کم از کم ایک یا دو گھر ایسے ضرور ہوا کرتے تھے جن کے ایک کمرے میں کھڈیاں لگا کر کھیس ، کھدر اور دریاں وغیرہ بنائی جا رہی ہوتی تھیں، اور یہ گھر کسی جولاہے کا ہوتا تھا۔ اپنے ہی گاوں کی کپاس سے کھڈیوں پر تیار کردہ کپڑے گاؤں کے باسیوں کا پہناوا اور ان جولاہوں کا ذریعہ معاش ہوا کرتا تھا۔ جولاہا بڑے مزے میں تھا کہ اچانک حکومت کو '' ترقی‘‘ کی سوجھی اور قرار پایا کی دیسی کپاس کی کاشت ملک کیلئے شجر ممنوعہ ہے، اس کی جگہ امریکن کپاس نے لے لی اور کھڈیوں کی جگہ ٹیکسٹائل ملوں نے۔ جولاہا حیران پریشان کہ اب وہ کرے تو کیا کرے ؟ پیٹ کا ایندھن بھرنے کیلئے وہ انہی ملوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو گیا۔یوں ماضی کا ایک اہم کردار ہمیشہ کیلئے گمنامی کے اندھیروں میں کھو گیا۔صرف یہی نہیں بلکہ ماضی کے ایسے ہی لاتعداد کردار جن میں چوہڑے (خاکروب )، ماچھی ، ماشکی ،مصلی، ملاح، دھوبی ، قصاب ، ترکھان اور ایسے ہی بہت سارے مزید طبقات بھی شامل تھے اب رفتہ رفتہ وقت کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔  

با با ناظر اور بونے

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

پہیلیاں

ایک بڈھے کے سر پر آگ گاتا ہے وہ ایسا راگ اس کے منہ سے نکلیں ناگجو تیزی سے جائیں بھاگ٭٭٭

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا
2023-09-16

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت
2023-09-02

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے
2023-08-16

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز